حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(جبرائیل ؑ) آتے ہیں جو موسیٰ ( ؑ ) کے پاس آیا کرتے تھے؟ میں نے کہا: اے بادشاہ ! کیا وہ ایسے ہی ہیں؟ اس نے کہا: تیرا ناس ہو اے عمرو ! میری بات مان لے اور ان کا اتباع کرلے، کیوں کہ وہ حق پر ہیں اور وہ اپنے مخالفوں پر ایسے غالب آئیں گے جیسے حضرت موسیٰ بن عمر ان فرعون اور اس کے لشکر پر غالب آئے تھے۔ میں نے کہا: کیا تم مجھے ان کی طرف سے اِسلام پر بیعت کروگے؟ اس نے کہا: ہاں۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھادیا اور میں اُن کے ہاتھ پر بیعت ہوگیا۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کے پاس باہر آیا تو میری رائے بدل چکی تھی۔ اپنے ساتھیوں سے میں نے اپنا اِسلام چھپائے رکھا۔ پھر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اِسلام لانے کے ارادے سے میں وہاں سے چل پڑا۔ راستے میں مجھے حضرت خالد بن ولید ملے،وہ مکہ سے آرہے تھے۔ یہ واقعہ فتحِ مکہ سے کچھ پہلے کا ہے۔ میں نے کہا: اے ابو سلیمان ! کہاں (جارہے ہو)؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! بات واضح ہوگئی ہے اور یہ آدمی یقیناً نبی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں (ان کے پاس) مسلمان ہونے جارہا ہوں۔ کب تک (ہم اِدھر اُدھر بھاگتے رہیںگے)؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں بھی مسلمان ہونے جارہا ہوں۔ چناں چہ ہم دونوں مدینہ حضورﷺ کی خدمت میں پہنچے ۔ حضرت خالد بن ولید آگے بڑھ کر مسلمان ہوئے اور انھوں نے حضورﷺ سے بیعت کی۔ پھر میں نے قریب ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ سے اس شرط پر بیعت کرتا ہوں کہ میرے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں، آیندہ کے گناہوں کے متعلق مجھے خیال نہیں آیا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو ! بیعت ہوجاؤ، کیوں کہ اِسلام اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت بھی اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو مٹادیتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں حضورﷺ سے بیعت ہوگیا پھر واپس آگیا۔ 1 اس روایت کو بیہقی نے واقدی کے حوالے سے زیادہ مفصل اور زیادہ بہتر طریقہ سے ذکر کیا ہے اور اس میں یہ مضمون بھی ہے: پھر میں (حبشہ سے) چل دیایہاں تک کہ جب میں ہَدَہ مقام پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ دو آدمی ذرا کچھ آگے جاکر پڑاؤ ڈال رہے ہیں، ایک خیمہ کے اندر ہے اور دوسرا دونوں سواریوں کو تھامے ہوئے ہے۔ غور سے دیکھنے سے پتہ چلا کہ یہ تو خالد بن ولید ہیں۔ میں نے کہا: کہاں جارہے ہو؟ انھوں نے کہا: محمد( ؑ) کی خدمت میں حاضری کا ارادہ ہے، کیوں کہ سارے لوگ اِسلام میں داخل ہوچکے ہیں، کوئی ڈھنگ کا آدمی باقی نہیں رہا۔ اگر ہم یوں ہی ٹھہرے رہے تو ہماری گردن کو ایسے پکڑ لیا جائے گا جیسے کہ بَھٹ میں بِجُّو کی گردن پکڑ لی جاتی ہے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میرا بھی محمد ( ؑ) کی خدمت میں حاضری کا اِرادہ ہے اور میں بھی مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ حضرت عثمان بن طلحہ ؓ نے خیمہ سے باہر آکر مجھے خوش آمدید کہا پھر ہم سب وہیں ٹھہرے گئے، پھر ہم ایک ساتھ ہی مدینہ آئے۔ مجھے اس آدمی کی بات نہیں بھولتی ہے جو ہمیں بیرِ ابوعتبہ کے پاس ملا۔ وہ یارَ با ح! یا رَ باح !یا رَباح! کہہ کر اپنے غلام کو پکار رہا تھا (رَباح اس کے غلام کا نام تھا لیکن اس کا لفظی