حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم غزوۂ خندق سے واپس آئے تو میں نے قریش کے اُن لوگوں کو جمع کیا جو میری رائے سے اتفاق کیا کرتے تھے اور میری بات سنا کرتے تھے۔ میں نے اُن سے یہ کہا: اللہ کی قسم ! تم جانتے ہو کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ محمد ( ؑ) کا دین تمام دینوں پر بری طرح غالب آتا جارہا ہے۔ مجھے ایک بات سمجھ میں آئی ہے تم لوگوں کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انھوں نے کہا: وہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا: میرا خیال یہ ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چلے جائیں اور وہیں رہا کریں ۔ پھر اگر محمد ( ؑ) ہماری قوم پر غالب آگئے تو اس وقت ہم نجاشی کے پاس ہوں گے ، کیوں کہ نجاشی کے ماتحت ہوکر رہنا ہمیں محمد ( ؑ) کے ما تحت ہوکر رہنے سے زیادہ پسند ہے۔ اور اگر ہماری قوم غالب آگئی تو ہم جانے پہچانے لوگ ہیں وہ ہمارے ساتھ بھلائی کا ہی معاملہ کریں گے۔ سب نے کہا: یہ تو بہت اچھی رائے ہے۔ میں نے کہا: اس کو دینے کے لیے کچھ ہدیے جمع کرلو۔ نجاشی کو ہمارے ہاں کے چمڑے کا ہدیہ سب سے زیادہ پسند تھا۔ چناں چہ ہم لوگوں نے یہاں کا تیار شدہ چمڑا کثیر تعداد میں جمع کیا۔ پھر ہم مکہ سے چلے اور اس کے پاس پہنچ گئے۔ اللہ کی قسم! ہم وہاں ہی تھے کہ اتنے میںعمرو بن اُمیَّہ ضمریؓ وہاں آئے اور حضورﷺ نے اُن کو نجاشی کے پاس حضرت جعفر ؓ اور اُن کے ساتھیوں کے بارے میں بھیجا تھا۔ حضرت عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن اُمیَّہ نجاشی کے پاس ملنے گئے اور پھر وہاں سے باہر آئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: یہ عمرو بن اُمیَّہ ہیں۔ اگر میں نجاشی کے پاس جاکر ان سے ان کو مانگ لوں اور وہ مجھے یہ دے دیں اور میں اُن کی گردن اڑادوں تو قریش یہ سمجھیں گے کہ میں نے محمد ( ؑ) کے قاصد کو قتل کرکے اُن کا بدلہ لے لیا ہے۔ چناں چہ میں نے نجاشی کے دربار میں جاکر نجاشی کو سجدہ کیا جیسے میں پہلے کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا :خوش آمدید ہو میرے دوست کو ۔ اپنے علاقہ سے میرے لیے کچھ ہدیے لائے ہو؟ میں نے کہا:ہاں، اے بادشاہ! میں آپ کے لیے ہدیہ میں بہت سے چمڑے لایا ہوں۔ چناں چہ میں نے وہ چمڑے اس کے سامنے پیش کیے ، وہ اسے بہت پسند آئے کیوں کہ وہ اس کی مرضی کے مطابق تھے۔ پھر میں نے اس سے کہا:اے بادشاہ!میں نے ایک آدمی کوآپ کے پاس سے نکلتا ہو ا دیکھا ہے، وہ ہمارے دشمن کاقاصد ہے۔ آپ اسے میرے حوالے کر دیں تاکہ میں اسے قتل کردوں، کیوں کہ اس نے ہمارے سرداروں اور معزّز لوگوں کو قتل کیا ہے ۔(یہ سنتے ہی) نجاشی کو ایک دم غصہ آگیا اور اس نے غصہ کے مارے اپنا ہاتھ اپنی ناک پر اس زور سے مارا کہ میں سمجھا کہ اس کی ناک ٹوٹ گئی ہے، اور ڈر کے مارے میرا یہ حال تھا کہ اگر زمین پھٹ جاتی تو میں اس میں گھس جاتا۔پھر میں نے کہا: اے بادشاہ ! اللہ کی قسم! اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ یہ بات آپ کو ناگوار گزرے گی تو میں آپ سے اسے بالکل نہ مانگتا۔ نجاشی نے کہا: تم مجھ سے اس آدمی کے قاصد کو مانگ کر قتل کرنا چاہتے ہو جس کے پاس وہی ناموس اکبر