حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آدمی بھی تھے۔ ہم لوگوںنے حضورﷺکوسلام کیا، حضورﷺنے ہمارے سلام کا جواب دیا۔ پھر ہم نے آپ سے گفتگو کی، آپ کو ہماری گفتگو پسند آئی۔ اور آپ نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ ہم نے کہا: (ہم ) مؤمن ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہر بات کی ایک حقیقت (اور نشانی) ہوا کرتی ہے، تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ پندرہ خصلتیں (ہمارے ایمان کی حقیقت اور نشانی ہیں)۔ پانچ خصلتیںوہ ہیں جن کا آپ نے ہمیں حکم دیا، اور پانچ خصلتیں وہ ہیں جن کا آپ کے قاصدوں نے ہمیں حکم دیا، اورپانچ خصلتیں وہ ہیں جن کو ہم نے زمانۂ جاہلیت میں اختیار کیا تھا اور اب تک ہم ان پر باقی ہیں۔ ہاں! اگر آپ ان سے منع کریں گے تو ہم ان کو چھوڑ دیں گے۔ آپ نے فرمایا: وہ پانچ خصلتیں کون سی ہیں جن کا میں نے تم کو حکم دیا؟ ہم نے کہا: آپ نے ہمیں اس بات کا حکم دیا کہ ہم اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور تقدیر پر ایمان لائیں کہ بھلا یا بُرا جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: وہ پانچ خصلتیں کون سی ہیں جن کا تم کو میرے قاصدوں نے حکم دیا؟ ہم نے کہا: آپ کے قاصدوں نے ہمیں اس بات کا حکم دیا کہ ہم اس بات کی گواہی دیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اور اس بات کا حکم دیا کہ ہم فرض نماز قائم کریں، اور فرض زکوٰۃ ادا کریں، اورماہِ رمضان کے روزے رکھیں، اوراگر ہم سفر کی طاقت رکھیں تو بیت اللہ کا حج کریں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ وہ پانچ خصلتیں کون سی ہیں جن کو تم نے زمانۂ جاہلیت میں اختیار کیا تھا؟ ہم نے کہا: سہولت اور خوشحالی کے وقت اللہ کا شکر کرنا، اور مصیبت اور آزمایش کے وقت صبر کرنا، اور لڑائی کے موقع پر جمنا اور جوہر دکھانا، اور اللہ کی قضا وتقدیر پر راضی رہنا، اور دشمن پر جب مصیبت آئے تو اس سے خوش نہ ہونا۔ حضورﷺ نے (صحابہ ؓکو مخاطب ہوکر) فرمایا:یہ لوگ تو بڑے سمجھ دار اور سلیقہ والے ہیں۔ ان عمدہ اور بہترین خصلتوں کی وجہ سے قریب تھا کہ یہ نبی ہوجاتے (یعنی ان کی تمام خصلتیں نبیوں والی ہیں) اور ہمیں دیکھ کر آپ مسکرائے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں پانچ خصلتوں کی وصیت کرتا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اندر خیر کی خصلتیں پوری کردے: جو تم نے کھانا نہیں ہے اسے جمع نہ رکھو (یعنی ضرورت سے زائد بچا ہوا کھانا صدقہ کر دیا کرو)، اور جس مکان میں رہنا نہیں ہے اسے مت بناؤ (یعنی ضرورت کے مطابق مکان بناؤ ضرورت سے زیادہ نہ بناؤ )، اور جس دنیا کو چھوڑ کر تم کل چل دوگے اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو، اور جس اللہ کے پاس تم نے جانا اور اس کے پاس جمع ہونا ہے اس سے تم ڈرو، اور جس دارِ آخرت کو تم نے جانا ہے اور وہاں ہمیشہ رہنا ہے اس کی فکر کرو۔1 ا سی حدیث کو ابو نعیم1 نے حضرت سُوَید بن الحارثؓ سے اس طرح ذکر کیا ہے کہ حضرت سُوَید فرماتے ہیں کہ میں اپنی قوم