حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا برتاؤ کرتے؟ انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ وہ اسلام کے جس دروازے سے باہر نکل گئے تھے میں اُن پر اسی دروازے سے واپس آجانے کو پیش کرتا، پھر اگر وہ اسلام کی طرف واپس آجاتے تو میں اُن کے اسلام کو قبول کرلیتا ورنہ انھیں جیل خانہ میں ڈال دیتا۔ 2 حضرت عبدالرحمن قاری کہتے ہیں: حضرت ابو موسیٰ ؓ کی طرف سے ایک آدمی امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت عمر نے اس سے لوگوں کے حالات پوچھے جو اُس نے بتائے۔ پھرحضرت عمر نے فرمایا کہ کیا کوئی عجیب وغریب بات تمہارے ہاں پیش آئی ہے؟ اس نے کہا :ہاں! یہ عجیب بات پیش آئی ہے کہ ایک آدمی مسلمان ہوکر پھر کافر ہوگیا۔ حضرت عمرنے فرمایا: تم نے اس کے ساتھ کیا برتاؤ کیا؟ اس نے کہا: اسے بلا کر اس کی گردن اُڑا دی۔ حضرت عمر نے فرمایا:کیا تم نے اسے تین دن قید کیا اور روزانہ اسے ایک روٹی کھلائی اور اس سے توبہ کروائی ؟ (اگر تم ایسا کرلیتے تو) شاید وہ توبہ کرلیتا اور اللہ کے دین میں واپس آجاتا۔ اے اللہ! اس موقع پر میں موجود نہیں تھا اور نہ ایسا کرنے کا میں نے حکم دیا تھا، اور اب جب مجھے اس واقعہ کا علم ہوا میں اس سے راضی بھی نہیں ہوا ۔ 1 حضرت عمرو بن العاص ؓ نے امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا کہ وہ اسلام میں داخل ہوا پھر کافر ہوگیا ، پھر اسلام میں داخل ہوا پھر کافر ہوگیا یہاں تک کہ ایسا اس نے کئی مرتبہ کیا۔ کیا اس سے اسلام قبول کیا جائے گا؟ تو حضرت عمر نے اُن کو یہ جواب لکھا کہ جب تک اللہ پاک لوگوں سے اسلام قبول کرتے رہیں، تم بھی اس سے اسلام قبول کرتے رہو، لہٰذا اب اس پر اسلام پیش کرکے دیکھو اگر وہ قبول کرلے تو اسے چھوڑ دو ورنہ اس کی گردن اُڑا دو۔ 2 حضرت ابو عمران جَونی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا ایک راہب کے پاس سے گزر ہوا، آپ وہاںکھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے راہب کو پکارا کر کہا: یہ امیر المؤمنین ہیں۔ اس نے جھانک کر دیکھا تو اس پر تکالیف اٹھانے اور مجاہدہ کرنے اور ترک ِدنیا کے آثار نمایاں تھے (یعنی مجاہدوں کی کثرت کی وجہ سے بہت خستہ حال اور کمزور ہورہا تھا)۔ اسے دیکھ کر حضرت عمر ؓ رودیے تو اُن سے کسی نے کہا: (آپ مت روئیں ) یہ تو نصرانی ہے(مسلمان نہیں ہے)۔ تو حضرت عمرنے فرمایا: یہ مجھے معلوم ہے لیکن مجھے اس پر ترس آرہا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ O تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً O}3 یاد آرہا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ (بہت سے لوگ) محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہیں، گریں گے دہکتی ہوئی آگ میں ۔(یعنی کافر لوگ جو دنیا میں بڑی بڑی ریاضت کرتے ہیں اللہ کے ہاں کچھ قبول نہیں ہوتی، اس لیے دنیا کی مشقتیں اٹھانے کے باوجود دوزخ میں جائیں گے)