حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آدمی نے کہا کہ میں انھیں ایسا آدمی بتاتا ہوں جو ان کو سواری دے د ے گا۔ آپ نے فرمایا: جو آدمی کسی کو خیر کا راستہ بتائے تو بتانے والے کو کرنے والے کے برابر اَجر ملے گا۔ 2 حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ غزوہ میں جانے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے فرمایا: اے مہاجرین اور اَنصار کی جماعت! تمہارے کچھ بھائی ایسے ہیں جن کے پاس نہ مال ہے اور نہ ان کا کوئی خاندان ہے (جو اُن کو مال دے دے)۔ لہٰذا تم میں سے ہر ایک اپنے ساتھ ایسے دویاتین آدمیوں کو ملالے۔ (چناںچہ ہر سواری والے نے اپنے ساتھ ایسے نادار دو، تین ساتھی لے لیے) اور ہم سواریوں والے بھی ان ہی کی طرح صرف اپنی باری پر سوار ہوتے (یعنی سواری کے مالک اور دوسروں کے سوار ہونے کی باری برابر ہوتی تھی)۔ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے بھی اپنے ساتھ دو یا تین نادار ساتھی لے لیے اور اُن میں سے ہر ایک کے سوار ہونے کی جتنی باری ہوتی تھی میری بھی اتنی ہی ہوتی تھی۔3 حضرت واثلہ بن اسقع ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے غزوۂ تبوک کی تیاری کا اعلان فرمایا۔ میں اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور وہاں سے واپس آیا تو حضور ﷺ کے صحابہ کی پہلی جماعت جا چکی تھی۔ تو میں مدینہ میں یہ اعلان کرنے لگا کہ ہے کوئی جو ایک آدمی کو سواری دے اور سواری والے کو اس آدمی کے مالِ غنیمت کا حصہ سارا مل جائے گا۔ تو ایک اَنصاری بڑے میاں نے کہا کہ ہم اس کے مالِ غنیمت کا حصہ اس شرط پر لیں گے (کہ اس کو مستقل سواری نہیں دیں گے بلکہ) باری پر ہم اس کو سوار کریں گے اور وہ کھانا بھی ہمارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اس نے کہا: پھر اللہ کا نام لے کر چلو۔ میں اس اچھے ساتھی کے ساتھ چل پڑا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں مالِ غنیمت دیا تو میرے حصہ میں کچھ جوان اُونٹ آئے۔ میں وہ اُونٹ ہانک کر اپنے اس ساتھی کے پاس لے گیا۔ وہ باہر آیا اور ایک اُونٹ کے پیچھے کے تھیلے پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: ان اُونٹوں کو پیچھے لے جائو (میں پیچھے لے گیا)۔ پھر اس نے کہا: ان کو آگے لے جائو (میں ان کو آگے لے گیا)۔ پھر اس نے کہا: مجھے تو تمہارے یہ جوان اُونٹ بڑے عمدہ نظر آرہے ہیں۔ میں نے کہا: یہی تو وہ مالِ غنیمت ہے جس کے دینے کا میںنے اعلان کیا تھا۔ اس بڑے میاں نے کہا: تم اپنے یہ جوان اُونٹ لے جائو اے میرے بھتیجے ! ہمارا ارادہ تو تمہارے مالِ غنیمت کے علاوہ کچھ اور لینے کا تھا۔ امام بیہقی کہتے ہیں: اس کامطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہارے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کے بدلہ میں ہم دنیا میں مزدوری لینا نہیں چاہتے بلکہ ہمارا ارادہ تو اَجر و ثواب میں شریک ہو نے کا تھا۔1 حضرت عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے راستہ میں کسی کو کوڑا دوں یہ مجھے ایک حج کے بعد دوسرا حج کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ 2