حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اے ابو عقیل! آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ میں لڑنے کی طاقت تو ہے نہیں۔انھوں نے کہا کہ اس منادی نے میرا نام لے کر آواز لگائی ہے۔ میں نے کہا: وہ تو کہہ رہا ہے: اے اَنصار! لڑنے کے لیے واپس آئو۔ وہ زخمیوں کو واپس بلانا نہیں چاہتا ہے (وہ تو اُن لوگوں کو بلا رہا ہے جو لڑنے کے قابل ہوں)۔ حضرت ابو عقیل نے کہا (کہ انھوں نے اَنصار کو بلایا ہے، اور میں چاہے زخمی ہوں لیکن ) میں بھی اَنصار میں سے ہوں اس لیے میں اُن کی پکار پر ضرور جائوں گا چاہے مجھے گھٹنوں کے بل جانا پڑے۔ حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عقیل نے اپنی کمر باندھی اور اپنے دائیں ہاتھ میں ننگی تلوار لی اور پھر یہ اعلان کرنے لگے کہ اے اَنصار! جنگ ِحنین کی طرح دشمن پر دوبارہ حملہ کرو۔ چناںچہ حضراتِ اَنصار جمع ہو گئے اللہ ان پر رحم فرمائے! اور پھر مسلمانوں سے آگے آگے بڑی بہادری کے ساتھ دشمن کی طرف بڑھے یہاں تک کہ دشمن کو میدانِ جنگ چھوڑکر باغ میں گھس جانے پر مجبور کر دیا۔ مسلمان اور دشمن ایک دوسرے میں گھس گئے اور ہمارے اور اُن کے درمیان تلواریں چلنے لگیں۔ حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو عقیل کو دیکھا کہ اُن کا زخمی ہاتھ کندھے سے کٹ کر زمین پر گرا ہوا تھا اور اُن کے جسم میں چودہ زخم تھے جن میں سے ہر زخم جان لیوا تھا اور اللہ کا دشمن مُسَیْلمہ قتل ہو گیا۔ حضرت ابو عقیل زمین پر زخمی پڑے ہوئے تھے اور اُن کے آخری سانس تھے۔ میں نے جھک کر اُن سے کہا: اے ابو عقیل! انھوں نے کہا: لبیک حاضر ہوں۔ اور لڑکھڑا تی ہوئی زبان سے پوچھا کہ فتح کس کو ہوئی ہے؟ میں نے کہا: آپ کو خوش خبری ہو (کہ مسلمانوں کو فتح ہو ئی ہے)۔ اور میں نے بلند آواز سے کہا: اللہ کا دشمن قتل ہو چکا ہے۔ اس پر انھوں نے اللہ کی حمد بیان کرنے کے لیے آسمان کی طرف اُنگلی اٹھائی اور انتقال فرما گئے۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ حضرت ابنِ عمر فرماتے ہیں کہ مدینہ واپس آنے کے بعد میں نے حضرت عمر کو اُن کی ساری کار گزاری سنا ئی تو حضرت عمر نے فرمایا: اللہ اُن پر رحم فرمائے! وہ ہمیشہ شہادت مانگا کرتے تھے، اور جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے بہترین صحابہ میں سے تھے اور شروع میں اِسلام لائے تھے۔1 حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب جنگ ِیمامہ کے دن مسلمانوں کو شکست ہو گئی تو میں نے دیکھا کہ حضرت ثابت بن قیس ؓ خوشبو لگا کر میدانِ جنگ میں جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ میں نے اُن سے کہا: اے چچا جان! کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں (کہ یہ کیا ہو رہا ہے، مسلمان شکست کھا کر بھاگ رہے ہیں)۔ انھوں نے کہا کہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ جاکر اس طرح جنگ نہیں کیا کرتے تھے۔ تم لوگوں نے (شکست کھا کھا کر) اپنے مقابل دشمن کو بہت بری عادت ڈال دی ہے۔ اے اللہ! ان (مرتدین) نے جو فتنہ کھڑا کیا ہے میں اس سے بھی بری ہوں، اور ان (مسلمانوں) نے جو کیا ہے (کہ