حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ کچھ عرصہ اُن کے پاس قید میں رہے یہاں تک کہ جب اُن لوگوں نے حضرت خُبَیب کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا توحضرت خُبَیب نے حارث کی ایک بیٹی سے زیرِ ناف بال صاف کرنے کے لیے اُسترا مانگا۔ اس نے ان کو اُسترا دے دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میری بے خیالی میں میرا ایک بیٹا چلتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا۔ انھوں نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا۔ میں نے جب اسے یوں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں بہت گھبراگئی کہ اُن کے ہاتھ میں اُسترا ہے (کہیں یہ میرے بیٹے کو قتل نہ کر دیں)۔ وہ میری گھبراہٹ کو بھانپ گئے تو انھوں نے کہا کہ کیا تمہیں یہ ڈر ہے کہ میں اسے قتل کر دوں گا؟ اِن شاء اللہ میں یہ کام با لکل نہیں کروں گا۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ میں نے حضرت خُبَیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ میں نے اُن کو دیکھا کہ وہ انگور کے ایک خوشے میں سے کھا رہے تھے حالاں کہ اس دن مکہ میں کوئی پھل نہیں تھا، اور وہ خود لوہے کی زنجیر میں بندھے ہوئے تھے (جس کی وجہ سے وہ کہیں سے جا کر لا بھی نہیں سکتے تھے) وہ تو اللہ تعالیٰ نے ہی اُن کو (اپنے غیب سے ) رزق عطا فرمایا تھا۔ چناںچہ اُن کو قتل کرنے کے لیے وہ لوگ ان کو حرم سے باہر لے چلے۔ انھوں نے کہا: ذرا مجھے چھوڑ دو میں دو رکعت نماز پڑھ لوں۔ چناںچہ نماز سے فارغ ہو کر ان کے پاس واپس آئے اور ان سے کہاکہ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تم لوگ یہ سمجھو گے کہ میں موت سے گھبرا گیا ہوں تو میں اور نماز پڑھتا۔ قتل کے وقت دو رکعت پڑھنے کی سنت کی ابتدا سب سے پہلے حضرت خُبَیب ؓ نے کی۔ پھر انھوں نے یہ بد دعا کی کہ اے اللہ!ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑنا۔ پھر انھوں نے یہ اَشعار پڑھے: وَمَا إِنْ أُبَالِيْحِیْنَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلٰی أَيِّ شِقٍّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِيْ جب مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہے تو اب مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے کہ میں اللہ کے لیے قتل ہوکر کس کروٹ گروں گا۔ وَذٰلِکَ فِيْ ذَاتِ الْإِلٰہِ وَاِنْ یَّشأْ یُبَارِکْ عَلٰی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُّمَزَّعٖ اور میرا یہ قتل ہونا اللہ کی ذات کی وجہ سے ہے، اور اگر اللہ چاہے تو وہ میرے جسم کے کٹے ہوئے حصوں میں برکت ڈال سکتا ہے۔ پھر عُقْبہ بن حارث نے کھڑے ہو کر ان کو قتل کر دیا۔ حضرت عاصم نے جنگِ بدر کے دن قریش کے ایک بڑے سردار کو قتل کیا تھا اس لیے قریش نے کچھ آدمیوں کو بھیجا کہ وہ اُن کے جسم کا کچھ حصہ کاٹ کر لے آئیں جس سے وہ اُن کو پہچان سکیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھیوں کا ایک غول اُن کے جسم پر بھیج دیا جنھوں نے ان لوگوں کو قریب نہ آنے دیا۔ چناںچہ وہ اُن کے جسم میں سے کچھ نہ لے جا سکے ۔ 1