حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
نام خط لکھا، جس میں کفارِ قریش نے حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ کو اپنے ہاں ٹھہرانے پر دھمکی دی اور انھیں یہ ڈراوا دیا کہ وہ تمام عربوں کو لے کر ان پر حملہ کردیں گے۔ اس پر ابنِ اُبی اور اس کے ساتھیوں نے مسلمانوں سے جنگ کرنے کا اِرادہ کرلیا۔ چناںچہ حضور ﷺ (کو جب اس کا پتہ چلا تو آپ) اُن کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا کہ جیسا فریب تمہیں قریش نے دیا ہے ایسا کسی نے تمہیں نہیں دیا ہوگا۔ وہ تمہیں آپس میں لڑانا چاہتے ہیں (کیوں کہ مسلمانوں میں تمہارے بھائی اور بیٹے بھی ہیں)۔ جب انھوں نے یہ سنا تو سمجھ گئے کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں اور وہ سب بکھر گئے (اور حضور ﷺ اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کا ارادہ ترک کردیا)۔ جب غزوۂ بدر ہوا تو اس کے بعد قریش نے یہود کو خط لکھا کہ تم تو ہتھیار اور قلعوں والے ہو (حضور ﷺ اور مسلمانوں کو قتل کردو) اور اس میں اُن کو خوب دھمکایا۔ چناںچہ اس پر بنو نضیر مسلمانوں سے غدّ اری پر آمادہ ہوگئے اور انھوں نے حضور ﷺ کو یہ پیغام بھیجا کہ آپ اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائیں ہمارے تین عُلمَا آپ سے ملاقات کریں گے (اور آپ سے بات چیت کریں گے)۔ اگر یہ تینوں آپ پر ایمان لے آئے تو ہم بھی آپ کا اِتباع کرلیں گے۔ چناںچہ آپ اس کے لیے تیار ہوگئے۔ ان تینوں یہودیوں نے اپنی چادروں میں خنجر چھپا لیے (کہ بات کرتے کرتے ایک دم حضور ﷺ پر حملہ کر دیں گے)۔ بنو نضیر کی ایک عورت کا بھائی مسلمان ہوچکا تھا اور اَنصار میں شامل تھا۔ اس عورت نے اپنے بھائی کو پیغام بھیج کر بنو نضیر کی اس چال سے باخبر کر دیا۔ اس کے بھائی نے حضورﷺ کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی یہ ساری بات آپ کو بتا دی۔ آپ (راستہ سے ہی) واپس آگئے اور صبح صبح ہی لشکر کے دستے لے کر ان کا اسی دن محاصرہ کرلیا اور اگلے دن صبح کو بنو قریظہ کا جاکر محاصرہ کرلیا، لیکن انھوں نے حضور ﷺ سے معاہدہ کرلیا۔ ان سے فارغ ہو کر حضورﷺ پھر بنو نضیر کے پاس واپس آئے۔ (یہ معاہدہ پر آمادہ نہ ہوئے) تو حضور ﷺ نے ان سے جنگ کی، آخر انھوں نے جلا وطنی پر حضورﷺ سے صلح کرلی اور یہ بات بھی طے پائی کہ ہتھیار کے علاوہ جتنا سامان وہ اپنے اُونٹوں پر لاد سکتے ہیں وہ سارا لے جائیں گے۔ چناںچہ انھوں نے ہر چیز لادنی شروع کی حتیٰ کہ اپنے گھروں کے دروازے بھی لاد لیے۔ چناںچہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو ویران کر رہے تھے اور اُن کو گرا رہے تھے اور جو لکڑی پسند آرہی تھی اسے لاد رہے تھے۔ یہ شام کی طرف اُن کی پہلی جلاوطنی تھی۔ 1 حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے بنو نضیر کا محاصرہ مسلسل جاری رکھا یہاں تک کہ وہ تنگ آگئے اور حضور ﷺ کی تمام باتیں انھوں نے مان لیں اور حضور ﷺ نے اُن سے اس بات پر صلح کی کہ اُن کو قتل نہیں کیا جائے گا اور وہ اپنے علاقہ اور وطن کو چھوڑ کر (بَلْقا اور عُمَان کے قریب ) ملکِ شام میں اَذرِعات مقام پر جا بسیں گے، اور آپ نے اُن میں