حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لے جا کر ٹھہرائیں، تاکہ آپ اللہ تعالیٰ کا کلام اور پیغام پہنچا سکیں، اور انھیں (اس کے بدلہ میں)جنت ملے گی۔ لیکن عرب کا کوئی قبیلہ بھی آپ کی اس بات کو نہیں مانتا تھا۔ یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ اِرادہ ہوا کہ اپنے دین کو غالب فرما دیں اور اپنے نبی کی مدد فرمادیں اور اپنے وعدے کو پورا فرما دیں، تواللہ تعالیٰ آپ کو اَنصارکے اس قبیلہ کے پاس لے آئے اور انھوں نے آپ کی دعوت کو قبول کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے وطن کو اپنے نبی ﷺ کے لیے ہجرت کا مقام بنا دیا ۔ 1 حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ مکہ میں موسم ِ حج میں اپنے آپ کو عرب کے ایک ایک قبیلہ پر پیش فرماتے لیکن کوئی بھی آپ کی بات نہ مانتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اَنصار کے اس قبیلہ کو (حضور ﷺ کی خدمت میں) لے آئے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت اور شرافت اُن کے لیے مقدر فرما رکھی تھی۔ چناںچہ ان لوگوں نے آپ کو ٹھکانا دیا اور آپ کی نصرت کی۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کو اپنے نبی کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔1 ’’جمع الفوائد‘‘ میں حضرت عمر ؓکی اس حدیث میں یہ اضافہ بھی ہے (کہ حضرت عمر فرماتے ہیں) کہ اللہ کی قسم! ہم نے انصارسے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے پورا نہیں کیا۔ ہم نے ان سے کہاتھاکہ ہم لوگ امیرہوں گے اور تم لوگ وزیر۔ اگر میں اس سال کے آخر تک زندہ رہا تو میراہر گورنر اَنصاری ہی ہوگا۔2 حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیںکہ موسم ِ حج میں حضور ﷺ اپنے آپ کو لوگوں پر پیش فرماتے تھے او ران سے کہتے تھے: ہے کوئی ایسا آدمی جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے؟ کیوں کہ قریش نے مجھے اپنے ربّ کا کلام پہنچانے سے روک دیا ہے۔ چناںچہ ایک مرتبہ ہمدان قبیلہ کا ایک آدمی آپ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے اس سے پوچھا: تم کون سے قبیلہ کے ہو؟ اس نے کہا: ہمدان کا۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہاری قوم کے پاس حفاظت کا اِنتظام ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ پھراس آدمی کو یہ خطرہ ہواکہ (وہ تو حضور ﷺ سے ساتھ لے جانے کا اور ان کی حفاظت کا وعدہ کرلے اور) قوم والے اس کے اس وعدہ کو نہ مانیں۔ چناںچہ اس نے حضور ﷺ کی خدمت میں آکر کہا کہ میں ابھی تو جا کر اپنی قوم کو بتاؤں گا اور اگلے سال آپ کے پاس آئوں گا (پھر آپ کو بتاؤں گا)۔ آپ نے فرمایا:اچھا۔ اور اَنصار کا وفد رجب میں آیا۔ 3 صفحہ ۳۲۹ پر نصرت پر بیعت کے باب میں اِمام احمد کی روایت سے حضرت جابر ؓ کی حدیث گزر چکی ہے کہ حضور ﷺ نے مکہ میں دس سال اس طرح گزارے کہ آپ لوگوں کے پاس حج کے موقع پر اُن کی قیام گاہوں میں عُکاظ اور مَجنَّہ کے بازاروں میں جایا کرتے تھے، اور ان سے فرماتے: کون مجھے ٹھکانا دے گا اور کون میری مدد کرے گا؟ تاکہ میں اپنے ربّ کا پیغام پہنچا سکوں اور اسے (اس کے بدلہ میں) جنت ملے گی۔ چناںچہ آپ کو کوئی ایسا آدمی نہ ملتا جو آپ کو ٹھکانا دے اور آپ کی مدد کرے (بلکہ آپ کی مخالفت اس حد تک پھیل گئی تھی) کہ کوئی آدمی یمن یا مُضَر سے (مکہ کے لیے) روانہ