حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں ہر صبح باہر اَبْطَح میدان میں جا کر بیٹھ جاتی تھی اور شام تک وہاں روتی رہتی تھی۔ یوں تقریباً سال گزرگیا، یہاں تک کہ ایک دن قبیلہ بنو مغیرہ کا ایک آدمی میرے پاس سے گزرا۔ وہ میرا چچازاد بھائی تھا۔ میری حالت دیکھ کراسے مجھ پر ترس آگیا تو اس نے بنومغیرہ سے کہا: کیا تم اس مسکین عورت کو جانے نہیں دیتے؟ تم لوگوں نے اسے اور اس کے خاوند اور اس کے بیٹے تینوں کو الگ الگ کر رکھاہے۔ اس پر بنومغیرہ نے مجھ سے کہا: اگر تم چاہتی ہو تو اپنے خاوند کے پاس چلی جاؤ۔ فرماتی ہیںکہ اس پر بنو عبد الاسد نے میرا بیٹا مجھے واپس کر دیا۔ میں نے اپنے اُونٹ پر کجاوہ باندھا پھر میں نے اپنے بیٹے کو اپنی گودمیں بٹھالیا، پھر میں مدینہ اپنے خاوند کے پاس جانے کے اِرادے سے چل پڑی اور میرے ساتھ اللہ کا کوئی بندہ نہیں تھا۔ جب میں تنعیم پہنچی تو مجھے وہاں بنو عبد الدار کے حضرت عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ ؓ ملے۔ انھوں نے کہا: اے بنتِ ابی اُمیّہ! کہاں جا رہی ہو؟ میںنے کہا: اپنے خاوند کے پاس مدینہ جانا چاہتی ہوں۔ انھوں نے کہا: کیا تمہارے ساتھ کوئی ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور میرے اس بیٹے کے علاوہ کوئی میرے ساتھ نہیں ہے۔ وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم! تمہیں تو (یوںاکیلا) نہیں چھوڑا جا سکتا۔ چناںچہ انھوں نے اُونٹ کی نکیل پکڑ لی اور میرے ساتھ چل پڑے اورمیرے اونٹ کو خوب تیز چلایا۔ اللہ کی قسم! میں عرب کے کسی آدمی کے ساتھ نہیں رہی جو اُن سے زیادہ شریف اور عمدہ اخلاق والا ہو۔ جب وہ منزل پر پہنچتے تو میرے اُونٹ کو بٹھا کر خود پیچھے ہٹ جاتے، اور جب میں اونٹ سے اتر جاتی تو میرے اونٹ کو لے کر پیچھے چلے جاتے اوراس کاکجاوہ اتار کر اسے کسی درخت سے باندھ دیتے، پھر ایک طرف کوکسی درخت کے نیچے جا کر لیٹ جاتے۔ جب چلنے کا وقت قریب آتا تو میرے اونٹ پر کجاوہ باندھ کر آگے میرے پاس لاکر اسے بٹھا دیتے اور خود پیچھے چلے جاتے اور مجھ سے کہتے: اس پر سوار ہوجاؤ۔ اور جب میں سوار ہوکر اپنے اونٹ پر ٹھیک طرح بیٹھ جاتی تو اگلی منزل تک میرے اونٹ کی نکیل آگے سے پکڑ کر چلتے رہتے۔ انھوں نے سارے سفر میںمیرے ساتھ یہی معمول رکھا، یہاں تک کہ مجھے مدینہ پہنچا دیا۔ جب قُبا میں بنو عمرو بن عوف کی آبادی پر اُن کی نظر پڑی تو مجھ سے کہا: تمہارا خاوند اس بستی میں ہے، تم اس میں داخل ہوجاؤ، اللہ تمہیں برکت دے! اورحضرت ابو سَلَمہ وہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ پھر وہاں سے وہ مکہ واپس چلے گئے۔ حضرت اُمّ سَلَمہ فرمایا کرتی تھیں کہ ابو سَلَمہ کے گھرانے نے جتنی مصیبتیں برداشت کی ہیں، میرے خیال میں اور کسی گھرانے نے اتنی مصیبتیں نہیں برداشت کی ہیں۔ اور میں نے حضرت عثمان بن طلحہ سے زیادہ شریف اور عمدہ اَخلاق والا رفیقِ سفر نہیں دیکھا۔ اور یہ حضرت عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ عبدری ؓ صلحِ حُدَیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے، اورانھوں نے اورحضرت خالد بن ولید ؓ نے اِکھٹے ہجرت کی ۔1