حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عمر نے کہا: میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور وہ مسلمان ہوگئے۔ (مسلمان ہونے کے بعد) انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ باہر (مسجدِ حرام کو نماز پڑھنے کے لیے) تشریف لے چلیں۔1 حضرت ثوبان ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے یہ دعا مانگی: اے اللہ! عمر بن خطّاب کے ذریعہ دین کو عزت عطا فرما۔ اس رات کے شروع کے حصہ میں حضرت عمر کی بہن { اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَO}2 پڑھ رہی تھیں۔ حضرت عمر نے اُن کو اِتنا مارا کہ انھیں یہ گمان ہوا کہ انھوں نے اپنی بہن کو قتل کر ڈالا ہے۔ جب صبح تہجد کے وقت حضرت عمر اٹھے تو انھوں نے اپنی بہن کی آواز سنی جوکہ { اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ O}3 پڑھ رہی تھیں تو حضرت عمر نے کہا: اللہ کی قسم! نہ تو یہ شعر ہے اور نہ یہ سمجھ میں نہ آنے والا پست کلام ہے۔ چناںچہ وہ وہاں سے چل کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے دروازہ پر حضرت بلال کو پایا۔ انھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا (یا دھکا دیا)۔ حضرت بلال نے پوچھا: یہ کون ہے؟ حضرت عمر نے کہا: عمر بن خطّاب ہے۔ حضرت بلال نے کہا: ذرا ٹھہرو، میں تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے لوں ۔ حضرت بلال نے عرض کیا: یا رسول اللہ! عمر دروازے پر ہیں۔ آپ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ کا عمر کے ساتھ خیر کا اِرادہ ہے تو وہ اسے دین میں داخل کر دیںگے۔ آپ نے حضرت بلال سے کہا: دروازہ کھول دو۔ (انھوں نے دروازہ کھول دیا، حضورﷺ باہر تشریف لائے) اور حضور ﷺ نے حضرت عمر کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر زور سے ہلایا اور فرمایا: تم کیا چاہتے ہو ؟ تم کس لیے آئے ہو ؟ حضرت عمر نے کہا: آپ جس چیز کی دعوت دیتے ہیں وہ میرے سامنے پیش کریں۔ آپ نے فرمایا: تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ( ؑ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ چناںچہ حضرت عمر اسی جگہ مسلمان ہوگئے اور عرض کیا: (یا رسول اللہ!) باہر تشریف لے چلیں۔1 حضرت عمرؓ کے غلام اسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تم کو اپنا اِسلام لانے کا شروع کا قصہ بیان کروں ؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ انھوں نے فرمایا: میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ حضور ﷺ پر سختی کرنے والا تھا۔ ایک مرتبہ میں سخت گرم دن میں مکہ کے ایک راستہ پر چلا جا رہا تھا کہ مجھے قریش کے ایک آدمی نے دیکھ لیا اور اس نے مجھ سے پوچھا: اے خطّاب کے بیٹے! کہاں جا رہے ہو ؟ میں نے کہا: اس آدمی (یعنی حضور ﷺ) کے پاس (قتل کرنے کی نیت سے) جانے کا ارادہ ہے۔ اس آدمی نے کہا کہ (محمد ﷺ کی) یہ بات تو تمہارے گھر میں داخل ہوچکی ہے اور تم یہ کہہ رہے ہو۔ میں نے کہا: یہ کیسے ؟ اس نے کہا: تمہاری بہن اس آدمی کے پاس جا چکی ہے (اور ان کے دین میں داخل ہوچکی ہے)۔ چناںچہ میں غصہ میں بھرا ہوا واپس لوٹا اور میں نے بہن کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضور ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جو کوئی ایسا آدمی مسلمان ہوتا جس کے پاس کچھ نہ ہوتا تو ایسے ایک یا دو آدمی ایسے شخص کے حوالے