حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھاہے۔ یہ سنتے ہی وہ سب لو گ حضرت عمر کی طرف جھپٹے۔ وہ سب حضرت عمر سے لڑتے رہے، یہاں تک کہ سور ج سروں پر آگیا اور حضرت عمر تھک کر بیٹھ گئے۔ اور سب مشرک حضرت عمر کے سر پر کھڑے تھے اور حضرت عمر فرما رہے تھے کہ جو تمہارا دل چاہتا ہے کرلو۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم (مسلمان) تین سو ہوگئے تو یا تو تم (مکہ ) ہمارے لیے چھوڑکر چلے جاؤ گے یا ہم تمہارے لیے چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں: یوں ابھی ہو ہی رہا تھا کہ قریش کا ایک بوڑھا آدمی سامنے سے آیا جو یمنی چادر اور دھاری دار کُرتا پہنے ہوئے تھا۔ وہ اُن کے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور اس نے پوچھا: تم لوگوں کو کیا ہوا ؟لوگوں نے کہا: عمر بے دین ہوگیا ہے۔ اس بوڑھے نے کہا: ارے چھوڑو! ایک آدمی نے اپنے لیے ایک بات پسند کی ہے، تم اس سے کیا چاہتے ہو؟ کیاتم یہ سمجھتے ہوکہ قبیلہ بنو عدی اپنے آدمی (حضرت عمر) کو ایسے ہی تمہارے حوالے کر دیں گے ؟ اس آدمی کوچھوڑ دو اور چلے جاؤ۔ حضرت ابنِ عمر کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اس بڑے میاں کے کہتے ہی وہ لو گ ایسے حضرت عمر سے چھٹ گئے جیسے کہ ان کے اوپر سے کوئی چادر اتار لی گئی ہو۔ جب میرے والد ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے تو میں نے ان سے پوچھا: اے اباجان! جس دن آپ اِسلام لائے تھے اور مکہ کے کافر آپ سے لڑ رہے تھے تو ایک آدمی نے آکر اُن لوگوں کو ڈانٹا تھا، جس پر وہ لوگ سب آپ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ آدمی کون تھا ؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! وہ عاص بن وائل سہمی تھے ۔ 1 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓگھر میں خوف زدہ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں عاص بن وائل سہمی ابو عمر و اُن کے پاس آیا۔ وہ یمنی چادر اوڑھے ہوئے تھا اور ایسی قمیض پہنے ہوئے تھا جس کے پلے ریشم کے ساتھ سِلے ہوئے تھے۔ یہ ابو عمرو بنو سہم قبیلہ کے تھے اور یہ لوگ زمانۂ جاہلیت میں ہمارے حلیف تھے۔ اس نے حضرت عمر سے پوچھا: تمہیں کیا ہوا؟ حضرت عمر نے کہاکہ تمہاری قوم کہہ رہی ہے کہ اگر میں مسلمان ہوگیا تو مجھے قتل کردیں گے۔ تو اس نے کہا: ( میں نے تمہیں اَمن دے دیا) اب تمہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اس کے اس کہنے کے بعد مجھے اطمینان ہوگیا اور میں محفوظ ہوگیا۔ عاص گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ساری وادی لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس نے پوچھا: تم لوگ کہاں جارہے ہوں؟ انھوں نے کہا: ہم خطّاب کے اس بیٹے (عمر) کے پاس جا رہے ہیں جو بے دین ہوگیا ہے۔ تو عاص نے کہا: نہیں، اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ( یہ سن کر) وہ تمام لوگ واپس چلے گئے ۔1