حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہی محبوب رکھتی ہے جیسے اہلِ فارس شراب کو۔ اور جس نے ہدایت کا اتباع کیا اس پر سلام ہو ۔ 1 حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ مجھے بنو بُقَیْلہ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کا وہ خط پڑھوایا جو انھوں نے اہلِ مدائن کے نام لکھا تھا (اور وہ یہ ہے ): خالد بن ولید کی جانب سے اہلِ فارس کے صوبہ داروں کے نام۔ جس نے ہدایت کا اتباع کیا اس پر سلام ہو۔ اَما بعد !تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے تمہاری جمعیت کو بکھیر دیااور تمہارا ملک چھین لیا اور تمہاری تدبیروںکو کمزور کردیا۔ (لکھنے کی اصل) بات یہ ہے کہ جو آدمی ہماری طرح نماز پڑھے گا اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے گا اور ہمارے ہاتھوں کا ذبح کیا ہوا جانور کھائے گا ،وہ مسلمان شمار کیا جائے گا۔ اسے بھی وہ حقوق ملیں گے جو ہمیں حاصل ہیں اور اس پر بھی وہ تمام ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو ہم پر ہیں۔ اَما بعد! جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو میرے پاس گروی کی چیزیں بھیجو (تاکہ بات پکی ہو)۔ اور اس بات کا یقین رکھوکہ ہم تمہاری تمام چیزوں کے ذمہ دار ہیں، ورنہ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے! میں تمہاری طرف ایسی جماعت بھیجوں گا جو موت سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی تم زندگی سے کرتے ہو۔ جب اہلِ فارس کے صوبہ داروں نے یہ خط پڑھا توان کو بڑا تعجب ہوا ۔یہ ۱۲ہجری کاواقعہ ہے۔1 حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ یمامہ کے رہنے والے زَباذِبہ کے والد اَزاذبہ کے ساتھ ہُرمُز کے نکلنے سے پہلے حضرت خالد ؓ نے ہُرمُز کو خط لکھا اور ان دنوں ہُرمُز سرحد کی کمان سنبھالے ہوئے تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا : اَما بعد !تم اِسلام لے آؤ محفوظ ہوجاؤگے، یا اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو ذِمّی مان لو اور جزیہ دینے کا اقرار کرلو، ورنہ اپنے کیے پر تمہیں پچھتانا پڑے گا۔ میں تمہارے پاس ایسی جماعت لے کر آیا ہوں جن کو موت ایسی پیاری ہے جیسے تمہیں زندگی پیاری ہے۔ 2 ابنِ جریر نے ہی اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت خالد ؓ نے جب عراق کے سر سبز علاقہ کی دو جانبوں میں سے ایک جانب کو فتح کرلیا، تو اہلِ حیرہ میں سے ایک آدمی کو بلایا اور اسے اہلِ فارس کے نام خط لکھ کر دیا۔ ان دنوں (ان کے بادشاہ )اَرْدشِیْر کا انتقال ہوا تھا اس لیے تمام اہلِ فارس مدائن آئے ہوئے تھے۔ ایک جھنڈے تلے نہیں تھے بلکہ اپنا اپنا جھنڈا بلند کیے ہوئے تھے۔ صرف بَہْمَن جازوَیْہ کو ان لوگوںنے مقدّمۃ الجیش دے کر بَہُر سِیْر شہر میں ٹھہرایا ہوا تھا۔ بَہْمَن جازوَیْہ کے ساتھ اَزاذِبہ اور اس جیسے اور سردار بھی تھے۔ حضرت خالد نے صَلُوبا (شہر) سے ایک اور آدمی بھی بلایا اور ان دونوں کو دو خط لکھ کر دیے: ایک خط خاص سرداروں کے نام اور دوسرا عام سرداروں کے نام۔ دونوں قاصدوں میں سے ایک تو حیرہ کا مقامی باشندہ تھا اور دوسرا نَبَطِی تھا۔ (نَبَطِی وہ عجمی لوگ ہیں جو عراق میں آباد ہوگئے تھے) حضرت خالد نے حیرہ والے قاصد سے پوچھا: تمہارا کیا نام ہے؟ اس نے کہا: مُرَّہ۔ (جس کا اُردو میں ترجمہ تلخ اور کڑوا ہے۔ اس کے نام سے فال لیتے ہوئے) حضرت خالد نے کہا کہ یہ خط اہل ِفارس کے پاس لے جاؤ یا تواللہ تعالیٰ اُن کی زندگی کو تلخ کردے گا یا وہ مسلمان