حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لوگوں کے بعد تو اب زندگی میں کوئی مزا نہیں رہا۔ عمیر نے کہا: تم سچ کہتے ہو۔ اللہ کی قسم! اگر مجھ پر قرضہ نہ ہوتا جس کی ادائیگی کا فی الحال میرے پاس کوئی انتظام نہیں ہے اور اپنے پیچھے بال بچوں کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ابھی سوار ہوکر محمد ( ؑ) کے پاس جاتا اور (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) ان کو قتل کردیتا، کیوں کہ میرے لیے ان کے پاس جانے کا ایک بہانہ ہے اور وہ یہ کہ میرا بیٹا ان کے ہاتھوں میں قید ہے۔ صفوان بن اُمیَّہ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور کہا: تمہارا قرضہ میرے ذمہ ہے،میں اسے تمہاری طرف سے ادا کردوں گا۔ تمہارے بال بچے میرے بال بچوں کے ساتھ رہیں گے اور جب تک وہ زندہ رہے میںاپنی وسعت کے مطابق اُن کا پورا خیال رکھوں گا۔ عمیر نے کہا: میری اور اپنی یہ باتیں رازمیں رکھنا۔ صفوان نے کہا: ایسا ہی کروں گا۔ عمیر کے کہنے پر تلوار تیز کردی گئی اور زہر میں بجھادی گئی۔ پھر وہاں سے چل کر وہ مدینہ پہنچے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ مسلمانوں کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے جنگ ِبدر کے حالات کا تذکرہ کررہے تھے، اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے جو ظاہر کے خلاف فتح سے نوازا اور دشمنوں کو جو کھلی شکست دکھائی اس کا تذکرہ کر رہے تھے۔ اتنے میں حضرت عمر کی نگاہ عمیر بن وہب پر پڑی جو گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے مسجد کے دروازے پر اپنی سواری بٹھا چکے تھے۔ حضرت عمر نے کہا: یہ کتا، اللہ کا دشمن ،عمیر بن وہب بری نیت سے ہی آیا ہے۔ اسی نے ہمارے درمیان فساد برپا کیا تھا اور بدر کے دن ہمارا اندازہ لگا کر اپنی قوم کو بتایا تھا۔ چناںچہ حضرت عمر فوراً حضورﷺ کی خدمت میں گئے اور عرض کیا: یا نبی اللہ !یہ اللہ کا دشمن عمیر بن وہب اپنے گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے آیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے میرے پاس لے آؤ۔ چناںچہ حضرت عمر گئے اور عمیر کی تلوار کے پَرتلے کو اس کے گریبان سمیت پکڑ کر کھینچا اور اپنے ساتھ کے انصارسے کہا: تم سب جاکر حضور ﷺ کے پاس بیٹھ جاؤ اور اس خبیث سے ہوشیار رہنا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ پھر حضرت عمر اسے لے کر حضورﷺ کی خدمت میں آئے۔ جب حضورﷺ نے دیکھا کہ حضرت عمر نے اسے پَرتلے اور گریبان سے پکڑ کر رکھا ہے تو فرمایا: اے عمر! اسے چھوڑ دو۔ اور اے عمیر! قریب آجاؤ۔ عمیر نے قریب آکر کہا: أَنْعِمْ صَبَاحًا(صبح بخیر!) اور جاہلیت والے آپس میں یوں سلام کیا کرتے تھے۔ حضورﷺ نے فرمایا: اے عمیر! اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے اس سلام سے بہتر سلام سے نوازا ہے اور وہ ہے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ جو کہ جنتیوں کا آپس میں سلام ہوگا۔ عمیر نے کہا: اللہ کی قسم! اے محمد ! میرے لیے تو یہ نئی بات ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اے عمیر! تم کیوں آئے ہو؟ اس نے کہا: میں اس قیدی کی وجہ سے آیا ہوں جو آپ کے ہاتھوں میں قید ہے۔ آپ اس پر احسان کریں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر گلے میں تلوار لٹکانے کا کیا مقصد ؟ عمیر نے کہا: اللہ ان