ملفوظات حکیم الامت جلد 13 - یونیکوڈ |
مقالات حکمت ( جلد دوم ) ---------------------------------------------------------------- 83 لیکن اس قدر کہ اس کا تحمل ہو سکے حد افراط تک نہ پہنچے ۔ ( 136 ) نیکی کا اجر سات سو گنا تک محدود نہیں : ایک روز ایک شخص نے پوچھا کہ اگر کسی چیز کا ثواب ایک شخص کو بخشا جائے تب تو ظاہر ہے کہ پورا ثواب اسی کو ملتا ہے لیکن اگر متعدد آدمیوں کو بخشا جائے تو وہ مقدار منقسم ہو گی یا خدا تعالی اپنے فضل سے اس کو مضاعف فرما کر سب کو پورا ثواب دیں گے ۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ بات یقینی طور سے تو معلوم نہیں کیونکہ شریعت میں بعض غیوب تو مفصل ہیں اور بعض مجمل ۔ اس مسئلے میں بھی تفصیل دیکھی نہیں گئی مگر اس میں شبہ نہیں کہ ثواب پہنچتا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ وہاں ایک قیراط بھی مثل احد کے ہے ۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی ایک خرما خدا کے رستے میں دے تو حق تعالی اس کی تربیت فرماتے ہیں ۔ حتی کہ وہ مثل احد کے ہو جاتا ہے ۔ تو اگر احد میں سے خرما کے برابر ٹکڑے کاٹے جائیں تو لاکھوں ہوں گے ۔ پس اگر اللہ تعالی اس طاعت کو قبول کر کے اس کی مقدار کو اس قدر بڑھا دیں کہ وہ تقسیم ہو کر بھی بقدر کافی سب کو پہنچ جائے تو کیا عجب ہے اور خرما کی حدیث مذکور کے متعلق یہ بھی کہا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں مضاعف سات سو عدد تک آیا ہے ۔ مقصود اس سے تکثیر ہے تحدید نہیں ۔ یہاں سے اس اعتراض کا بھی جواب ہو گیا جو کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خدا و رسول کے کلام میں سات کا عدد بہت زیادہ آیا ہے ۔ چنانچہ ہفت و ہفتاد و ہفت صد وغیرہ وجہ دفع یہ کہ یہ لوگ محاورہ عرب سے واقف نہیں کہ اس سے مراد محض تکثیر ہوتی ہے عدد معین مراد نہیں ہوتا ۔ چنانچہ ہماری زبان میں بیس کا لفظ زیادہ آتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ بیسیوں دفعہ کہا ، بیسیوں دفعہ گیا ۔ تو اگر قرآن زبان اردو میں نازل ہوتا تو بیس کا عدد بہت آتا ۔ پس اس معنی کے اعتبار سے میرے نزدیک مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ