ملفوظات حکیم الامت جلد 13 - یونیکوڈ |
مقالات حکمت ( جلد دوم ) ---------------------------------------------------------------- 287 کے مسلمانوں اور کافروں کی وضع میں ظاہرا کچھ فرق محسوس نہیں ہوتا ۔ لباس کافروں کا سا ، بات چیت سلام داڑھی ترشوانا اور داڑھی منڈوانا تو ایسا عام ہو گیا ہے کہ لوگ داڑھی منڈوا کر شرماتے بھی نہیں ۔ میں نے ایک موقع پر وعظ میں بیان کیا تھا ۔ وہاں اکثر ریش تراش موجود تھے کہ صاحبو پہلے بوجہ ریش تراشی ہم ملا لوگوں سے حیا کرتے تھے ، اب ہم اپنی ریش درازی کی وجہ سے آپ صاحبوں کے سامنے دریائے شرم میں غرق ہیں اور سخت افسوس یہ ہے کہ آپ لوگ ریش تراشی کا ارتکاب کریں اور بعضے کافر ریش درازی اختیار کرنے لگیں ۔ ایسی ضد کا کیا ٹھکانا دین اپنا چھوڑ کر میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا ایسے ایک مجتہد صاحب سے کسی سائل نے اس کی نسبت یا کلوخ لینے کی نسبت سوال کیا تھا ۔ فرمایا ریش داشتن یا کلوخ گرفتن ( بہ شک راوی صاحب دامت فیوضہم ) اگرچہ خوب است و لیکن نباید داشت یا نباید گرفت کہ فعل سنیان است ۔ نعوذ باللہ عزوجل من ذلک ۔ زمانہ کے انقلاب سے حالت زمانہ بالکل مبدل ہو گئی ۔ مسلمان اور کافروں میں کوئی تمیز ہی نہیں ۔ حدیث شریف میں آیا ہے : من تشبھ بقوم فھو منھم ۔ یعنی جس فرقہ کی جو شخص مشابہت کرے گا وہ اس فرقہ میں شمار ہو گا ۔ اور جب صرف مشابہت کرنے والے کو بھی اسی فرقہ سے فرمایا تو بعضے لوگ بعینہ وہی ہو گئے ہیں جیسا بکثرت فساد عقائد مشاہدہ ہے ۔ اتنا فرق ہے کہ مسلمانوں کے مکانوں میں پیدا ہوئے ہیں اور اگر ان صاحبوں کے دلوں میں خوف خدا نہیں رہا تو قومی شعار سمجھ کر اپنی اس وضع کی حفاظت کریں اور دوسری وضع سے باز آئیں ۔ یہ لوگ تو قومی حمیت کے بڑے مدعی ہیں ، قوم کے نفع کے جویاں ہیں ۔ انہیں امور کو ملحوظ نظر رکھ کر ریش تراشی کو ترک فرمائیے ۔ ( 88 ) طالب علموں کا طالب علمی کے خلاف کوئی کام کرنا بہت زیادہ ناپسندیدہ ہے ۔