ملفوظات حکیم الامت جلد 13 - یونیکوڈ |
|
مقالات حکمت ( جلد دوم ) ---------------------------------------------------------------- 219 رہے ہیں ۔ مگر اب تو اس باب میں نص بھی ہے کہ " اللہ خالق کل شیء " سے بھی استدلال ہو سکتا ہے ، کیونکہ کل شیء میں مادہ ارواح وغیرہ غرضیکہ جس پر شے کا اطلاق آتا ہے ، سب داخل ہیں اس لئے خدا سب کا خالق ہے ۔ جیسے ان اللہ علی کل شیء قدیر سے ہر شے کا تحت القدرت داخل ہونا معلوم ہوتا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ قدیم تحت القدرت نہیں ہوا کرتا ، قدرت ممکنات سے متعلق ہوا کرتی ہے اور جب کل شیء میں مادہ اور ارواح داخل ہیں تو متعلق قدرت ضرور ہوں گے پس قدیم نہ ہوں گے ۔ ( 48 ) اجمال و اطلاق میں فرق کرنا مجتہد کا کام ہے : اجمال و اطلاق میں فرق کرنا بڑا مشکل ہے اور یہ ایک امر اجتہادی ہے ۔ اجمال کی تفسیر و بیان تو ظنی دلیل بھی ہو سکتی ہے ، البتہ مطلق کو مقید کرنے کے لئے قطعی میں ظنی دلیل کافی نہیں ۔ پس مسح راس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ امام صاحب نے اس کو مجمل سمجھا ہو اور اس کے بیان کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول یا فعل کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے ، قول تو ملا نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فعل سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی صرف ناصیہ یعنی مقدم راس پر بھی مسح کیا ہے اور وہ ربع راس کے برابر ہے اور اس سے کم ثابت نہیں ۔ اس لئے امام نے حدیث فعلی کو مجمل کا بیان قرار دیا ۔ اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ اقل مہر دس درہم امام صاحب نے اس وجہ سے قرار دیا ہو کہ " تبتغوا باموالکم " کو مجمل قرار دیا ہو اور اس کے بیان کی ضرورت ہوئی ۔ چنانچہ ایک روایت بیان کی جاتی ہے : لا مھر الا عشرۃ دراھم " لیکن اس حدیث کی تضعیف کی گئی ہے ، پھر یہ جواب دیا ہے کہ ممکن ہے کہ امام صاحب کو سند صحیح سے پہنچی ہو ، اگر یوں کہا جائے کہ اس کا بیان ایک حدیث فعلی ہے تو بہتر ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو مہر خود مقرر فرمائے ہیں ان میں سب سے کم ام سلمہ کا مہر ہے جس میں ایک متاع کو مہر