ملفوظات حکیم الامت جلد 13 - یونیکوڈ |
مقالات حکمت ( جلد دوم ) ---------------------------------------------------------------- 187 ممکن ہے کہ لوح محفوظ میں بلا ذکر تعلیق لکھا گیا ہو مگر علم الہی میں اس کی کوئی شرط موجود ہو کہ اگر وہ شرط پائی جائے تو یہ بھی پائی جائے گی اور یہی معنی ہیں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے اس قول کے کہ میں قضائے مبرم کو بھی بدلوا دیتا ہوں ، یعنی اس قضا کو جو کہ بصورت ابرام لوح محفوظ میں لکھی گئی ہے مگر علم الہی میں وہ معلق مثلا کسی مقبول کی دعا پر ۔ اور قضاء معلق اصطلاح میں وہ ہے کہ جس کے وجود کو لوح محفوظ ہی میں معلق علی الشرط کر کے لکھا گیا ہو ۔ ( 37 ) جو کسی کے حق میں محبوس ہو اس کا نفقہ حابس پر ہے : فرمایا کہ اکثر اہل دنیا کہا کرتے ہیں کہ عربی پڑھ کر انسان کیا کرے اور کہاں سے کھائے ۔ فرمایا کہ اس کا جواب ضابطہ کا یہ ہے کہ اہل دنیا سے لے کر اور ان کے اموال سے وصول کر کے کھائے ۔ اس لئے کہ ہم لوگ اشاعت و حفاظت دین میں مصروف ہیں ، لوگوں کی اصلاح کی فکر کرتے ہیں ۔ ہم ان کی ضرورتوں میں محبوس ہیں اور جو شخص کسی کی ضرورتوں میں محبوس ہو اس کا نان نفقہ اس شخص کے ذمہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ زوجہ کا نفقہ شوہر پر ، قاضی کا نفقہ بیت المال میں اور شاہد کا نفقہ من لھ الشھادۃ پر ۔ اس مسئلے کی وجہ سے ہی پھر جب ہم مسلمانوں کے مذہبی کام میں محبوس ہیں اور ان کے مذہب کی حفاظت کرتے ہیں ، روز مرہ کی جزئیات میں ان کو مذہبی حکم بتاتے ہیں تو ہمارا نفقہ ان کے ذمہ واجب ہے ۔ ہم سے یہ کہنا کہ عربی پڑھ کر کیا کیجئے گا اپنی حماقت کا ہم پر ظاہر کرنا ہے ۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس بات کی فکر اور اہتمام ان کے ذمہ تھا وہ اس میں کوتاہی کر رہے ہیں اور علماء اس کوتاہی سے خاموش ہیں ۔ اس کو خود علماء کے سامنے پیش کر کے یاد دلاتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آپ ہمارا کام کرتے ہیں لیکن ہم اپنی حماقت سے اس کو اپنا کام نہیں سمجھتے اور باوجودیکہ آپ کی ضروریات کا تکفل ہمارے ذمہ ہے ( بوجہ آپ کے محبوس ہونے کے ) لیکن ہم اپنی عقلمندی سے اس تکفل کو اپنے ذمہ