ملفوظات حکیم الامت جلد 13 - یونیکوڈ |
مقالات حکمت ( جلد دوم ) ---------------------------------------------------------------- 61 فرماتے ۔ کیونکہ وہ اپنے بندوں کے احوال کو خوب جانتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ میرے بعضے بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کو صحت اور فراغ عطا کیا جائے تو شاید ان کا ایمان بھی سلامت نہ رہ سکے ۔ ایسے لوگوں کو اپنے کرم اور شفقت سے ہمیشہ بیمار یا کسی فکر میں مبتلا رکھتے ہیں اور بعضے ایسے ہیں کہ اگر ان کو بیمار کرتے یا اور کوئی تکلیف پہنچتی تو ان کا ایمان باقی نہ رہتا ۔ ایسوں کو اپنے احسان سے تندرست رکھتے ہیں اور میرے نزدیک حضرت سلیمان علی نبینا و علیہ السلام کو جو فرمایا کہ ھذا عطاءنا فامنن او امسک بغیر حساب ۔ اس کا مبنی بھی یہی قاعدہ ہے اور فرمایا کہ اگرچہ کسی تفسیر میں نہیں دیکھا لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ بغیر حساب کے معنی یہ ہیں کہ حساب کتاب کے خوف سے مامون رہیں ۔ کیونکہ اتنی بڑی عطا کے بعد حساب و کتاب کا اندیشہ طبعیت کو ضعیف کر دیتا ہے اس لئے اس سے فارغ کر دیا ، ان کے مناسب یہی تھا اور بعضے انبیاء علیہم السلام کے لئے خود کثرت مال ہی مناسب نہ تھی ان کو مال کثیر نہیں دیا و علی ہذا بعض کو مبتلائے مصائب کرتے ہیں تاکہ یہ صبر کریں اور بعض کو اس سے محفوظ رکھتے ہیں تاکہ وہ شکر کریں ۔ بعض پر خوف و خشیت کو غالب کر دیتے ہیں اور بعض پر امید و رجا کو غالب فرما دیتے ہیں ۔ غرض جو جس کو مناسب ہوا اس کو عطا فرمایا ۔ خوب کہا ہے : بہ گوش گل چہ سخن گفتہ کہ خنداں ست بہ عندلیب چہ فرمودہ کہ نالاں ست ( 78 ) انبیاء علیہم السلام میں بھی ذوق کا اختلاف ہوتا ہے فرمایا کہ قرآن کریم میں حضرت موسی علیہ السلام کے قصے میں تو یہ ارشاد ہے : فقولا لھ قولا لینا لعلھ یتذکر او یخشی ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ارشاد ہے : جاھد المنفقین واغلظ علیھم ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت موسی میں فطرت غضبیھ غالب تھا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں رحمت کی شان بہت زیادہ