ملفوظات حکیم الامت جلد 13 - یونیکوڈ |
مقالات حکمت ( جلد دوم ) ---------------------------------------------------------------- 169 دلیل کی اعلی درجے کی تائید ہوتی ہے ۔ ( 74 ) سودی معاملہ دار الحرب میں بھی جائز نہیں : فرمایا کہ تحقیق الہامی کے طور پر ایک بات لکھ لو ۔ وہ یہ کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ لا ربوا بین المسلم والحربی فی دار الحرب ۔ اس سے ربوا کے جواز پر استدلال نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ اس قسم کی ترکیب کے دو معنی ہوا کرتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ لا مضائقہ فیہ ، دوسرے یہ کہ لا یتحقق حقیقتھ ولا یترتب جمیع احکامھ ۔ مثلا لا ربوا کے اگر یہ معنی ہوں کہ ان میں ربوا کی حقیقت ہی مرتب نہیں تو اس کا اثر غایۃ ما فی الباب یہ ہو گا کہ اس پر جمیع احکام مرتب نہ ہوں گے ۔ مثلا وہ واجب الرد نہ ہو اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ربوا کے دوسرے آثار بھی مرتب نہ ہوں ۔ مثلا گنہگار ہونا کہ اس کا تحقق باوجود عدم تحقق حقیقت ربوی کے بھی ہو گا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ خود فقہا نے بھی لا ربوا بین العبد و سیدہ میں عدم تحقق حقیقت مانا ہے ۔ لیکن ارتکاب صورت ربوی سے دونوں گنہگار ہوں گے ۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ لا صلوۃ الا بطھور ۔ اس میں نفی کے معنی یہی ہیں کہ بدون وضو حقیقت صلوۃ متحقق نہ ہو گی لیکن باوجود اس کے اس طرح نماز کی ہیئت سے اس پر گناہ ہو گا علی ہذا ۔ لا نکاح بین المحارم میں بھی یہی مراد ہے ۔ جس کا اثر یہ ہے کہ وجوب مہر و فرضیت نفقہ نہ ہو گا ۔ لیکن نفس اس فعل سے ضرور گناہ ہو گا ۔ نیز لا صوم یوم عید میں بھی یہی ہے اور لا رضاع بعد الفطام میں بھی یہی معنی ہیں کہ حقیقت رضاع کا تحقق نہ ہو گا ۔ چنانچہ حرمت رضاع ثابت نہ ہو گی ۔ لیکن بعد مدت رضاع کے دودھ پلانا گناہ ضرور ہو گا ۔ پس جب حدیث لا ربوا الخ اس معنی کو متحمل ہے اور خود حدیث میں اس کے مویدات و نظائر اس قدر موجود ہیں تو اس حدیث کی وجہ سے حلت ربوا پر استدلال کافی نہ ہو گا ۔