ملفوظات حکیم الامت جلد 13 - یونیکوڈ |
مقالات حکمت ( جلد دوم ) ---------------------------------------------------------------- 196 طاعت ہے اور طاعت کو طاعت کا ذریعہ بنانے میں کچھ مضائقہ نہیں ۔ پھر فرمایا کہ مجھے مدت سے شبہ تھا کہ قراء جو اکثر مجالس میں فرمائش پر قرآن شریف سناتے ہیں یہ جائز ہے کہ نہیں ۔ منشاء شبہ کا یہ تھا کہ اس سنانے سے اکثر یہ غرض ہوتی ہے کہ یہ لوگ خوش ہوں اور ہمارا پڑھنا ان کو اچھا معلوم ہو اور یہ بظاہر ریا ہے ۔ لیکن بحمداللہ حدیث شریف سے یہ شبہ زائل ہو گیا ۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسی اشعری سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ رات کو تم قرآن پڑھ رہے تھے ۔ میں نے سنا ، واقعی تمہاری آواز بہت عمدہ ہے ، خوب پڑھتے ہو ۔ یہ سن کر ابو موسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے خبر نہ ہوئی ۔ ورنہ خوب مزین کر کے اور بنا کر پڑھتا ۔ لحبرتھ تحبیرا لیکن اس حدیث شریف کے بعد بھی یہ خدشہ طبعیت میں باقی رہا کہ اس سنانے سے مقصود تو صرف ارضاء عبد ہوتا ہے اور یہ ریا ہے ۔ لیکن یہ شبہ غور کرنے کے بعد زائل ہو گیا اور یہ سمجھ میں آیا کہ اسماع دو قسم کا ہے ۔ ایک تو وہ کہ اس میں طلب جاہ یا طلب مال مقصود ہو تو حرام ہے اور اگر محض تطییب قلب عبد ہو تو کچھ حرج نہیں ۔ کیونکہ تطییب قلب عبادت ہے اور ایک عبادت کو دوسری عبادت کا ذریعہ بنانے میں کچھ حرج نہیں ہے ۔ ( 54 ) معاصی میں ہر دم اپنے کسب پر التفات رہنا چاہئے : گناہ گرچہ نبود اختیار ما حافظ : تو در طریق ادب کوش و گو گناہ منست لوگوں میں مشہور ہے کہ اس کے معنی بہت مشکل ہیں اور بظاہر معلوم بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ یہ موہم جبر ہے ۔ لیکن غور کرنے سے یہ شعر بالکل حل ہو جاتا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ بروئے عقل و نقل ثابت ہے کہ ہر عمل میں ایک مرتبہ خلق کا ہے ، ایک مرتبہ کسب کا اور مرتبہ خلق خدا کے لئے خاص ہے اور مرتبہ کسب و صدور بندے کے ساتھ ۔ پس حافظ کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو حسنات میں تو مرتبہ خلق پر التفات چاہئے اور مرتبہ کسب عبد پر التفات نہ کرنا چاہئے اور معاصی میں