ملفوظات حکیم الامت جلد 13 - یونیکوڈ |
مقالات حکمت ( جلد دوم ) ---------------------------------------------------------------- 133 حدیث ثانی کو محکم اور حدیث اول کو ماول کہا ہے ۔ پہلوں نے کہا ہے کہ فراز از مجذوم کا حکم عقیدہ باطل تعدیہ مرض سے حفاظت کی غرض سے فرمایا گیا ہے اور دوسروں نے کہ جن پر مذاق حکماء غالب تھا یہ کہا کہ تعدیہ تو صحیح اور مشاہد ہے تو حدیث لا عدوی کے معنی یہ ہیں کہ یہ امراض بالذات متعدی نہیں ۔ یعنی جہلاء عرب حکماء یونانیین کی طرح یوں سمجھے تھے کہ بعض امراض بالذات متعدی ہیں ۔ مثلا جیسے خدا نے آگ میں جلانے کی خاصیت رکھی ہے تو جب کوئی چیز آگ سے ملاتی ہو گی آگ اس کو ضرور جلائے گی ۔ اس میں عادتا تخلف نہیں ہو سکتا ۔ پس لا عدوی سے اس اعتقاد کو روکا ہے اور یہ مطلب نہیں کہ تعدیہ کا مطلقا تحقق نہیں ۔ پس طاعون کے مقام سے عدم خروج کا حکم فرقہ اولی کی تحقیق کی بناء پر تو ظاہر ہی ہے کہ جب عدوی نہیں تو کیوں بھاگتے پھرو اور طاعون کی جگہ میں نہ جانے کا حکم اس لئے کہ ضعیف الاعتقاد لوگوں کے اعتقاد میں عدم تعدیہ میں کمی نہ آ جائے ۔ یعنی ممکن ہے کہ ان کی تقدیر میں موت من الطاعون لکھی ہو اور اس مقدر کا وقوع طاعون کی جگہ جا کر ہو اور یوں سمجھے کہ یہاں آنے سے بیماری لگ گئی اور اس طرح اعتقاد خراب ہو جائے ۔ باقی دوسرے فرقے کی تحقیق کی بناء پر بھاگنے کی ممانعت کی وجہ تو یہ ہو گی کہ حقوق مرضی کی اضاعۃ لازم نہ آئے ۔ یعنی جب تمام تندرست وہاں سے بھاگ جائیں تو بیماروں کی دیکھ بھال کون کرے گا اور اگر وہ مر جائیں تو ان کی تجہیز و تکفین کیسے ہو گی اور بیماری کی جگہ نہ جانے کا حکم تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ تعدیہ کا سبب نہ ہو جائے اور تتمہ مسئلہ خروج کا یہ ہے کہ اب اگر سب کے سب شہر سے باہر چلے جائیں تو جائز ہے جیسا حضرت مولانا گنگوہی فتوی دیتے تھے لیکن بعض کا رہنا اور بعض کا باہر چلے جانا یہ جائز نہیں ۔ ہاں اگر وہ باہر سے آ کر ان کی خبر گیری کرتے رہیں تو بعض کا جانا بھی مضائقہ نہیں ہے ۔ مگر فناء بلد سے دور نہ ہوں ۔ اور دوسری توجیہ یہ ہے کہ ان کے اعتقاد کے موافق تعدیہ لازم