گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
ضرور دیں گے۔ ہمارا گمان رکھنا کہ اللہ مجھے عنایت نہیں کریں گے، یہ بھی گناہ کے زمرے میں آئے گا۔ قرآن پاک میں ہے: وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلًا (النساء: 122)ترجمہ: ’’اور اللہ سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے؟‘‘اللہ پاک سے سچے پکے یقین کے ساتھ مانگنا چاہیے۔قبولیتِ دعا کی نوعیت یہاں پر سمجھنے والی دو باتیں اور ہیں ۔ جب ہم نے اللہ سے مانگنا شروع کر دیا تو ہمیں ضرور ملے گا، یہ پکی بات ہے۔ قیامت کے دن اللہ ربّ العزّت کسی بندے سے یہ سننا گوارا نہیں کریں گے کہ کوئی بندہ کھڑے ہو کر اللہ سے کہہ دے کہ اللہ! میں نے تجھ سے مانگا تھا تو نے مجھے نہیں دیا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ رات کو اللہ سے مانگیں تو دن میں اللہ اس مسئلے کو حل کردے، اور میری خواہشات پوری کردے۔ حضرت زکریا علیہ السلام جوانی سے اولاد مانگ رہے ہیں بوڑھے ہوگئے ہیں : رَبِّ اِنِّیْ وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًاوَلَمْ اَکُنْ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا (مریم: 4)ترجمہ: ’’میرے پروردگار! میری ہڈیاں تک کمزور پڑگئی ہیں ، اور سر بڑھاپے کی سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے، اور میرے پروردگار! میں آپ سے دعا مانگ کر کبھی نامراد نہیں ہوا‘‘۔اللہ تعالیٰ سے مانگنے سے وہ نبی نا امید نہیں ہوئے۔ نبی کی دعا تو مقبول دعا ہے۔ اللہ ربّ العزّت نے اپنی شان دکھائی ہے کہ وہ جب مرضی قبول کرلے۔ ہم لوگ کہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ صبح اگر دعا ہم نے مانگی تو رات تک ضرور اس کی قبولیت ہونی _