گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
ساری رقم فارغ کر دی، کچھ بھی نہیں رکھا۔ ان کا اپنا روزہ تھا۔ شام کو ان کی باندی اُمّ ذرّہ نے کہا کہ آپ کے پاس اتنا مال آیا تھا، ایک درہم ہی رکھ لیتیں تو آج افطار میں گوشت لیتے۔ کہنے لگیں کہ پہلے یاد دلا دیتی تو میں رکھ لیتی، اب تو چلا گیا، اب کیا کہنا۔(حلیۃ الاولیاء: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا زہد اور سخاوت)یہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنھن کا مزاج تھا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں تنگی کے باوجود خرچ کیا کرتی تھیں ۔ سبحان اللہ! کیا خوب جذبہ تھا۔مال کے ذریعے خیر خواہی کرنا ہم یہ تو نہیں کہہ رہے آپ کو کہ سارا مال خرچ کر دیں ۔ آج کے زمانے کا اور اُن کے حالات کا فرق ہے۔ اس زمانے میں مال کا ہونا ایمان کی سلامتی کے لیے ڈھال ہے۔ وجہ کیا ہے؟ ایک دوسرے کی خیر خواہی۔ بیوی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنا، گھر والوں کی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسی طرح ایک اور حکم بھی ہماری طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے۔ مثال کے طور پر بھائی کا انتقال ہوگیا۔ اب اس کی بیوہ ہے، اس کی بچیاں ہیں ، بچے ہیں ۔ ان کی ذمہ داری بھی ہمارے اوپر ہی آتی ہے۔ ایسے ایسے حالات آتےہیں کہ میں زبان سے بتا نہیں سکتا۔ چند دن پہلے ہی ایک بات سامنے آئی۔ کسی آدمی کا انتقال ہوگیا۔ تو جو اس کا بھائی تھا اُس نے کہا کہ جی! ٹھیک ہے میں آپ کا خرچہ دے سکتا ہوں ، لیکن ایک شرط ہے کہ عزت کو نیلام کرنا ہوگا۔لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ! کھلی باتیں کرتے ہیں ۔ تو اس زمانے میں مال کا ہونا ایمان کے لیے ڈھال ہے۔ حلال مال کا ہونا اور وافر ہونا، جس کے حقوق ہم ادا کریں یہ ہمارے ایمان کے لیے ڈھال ہے۔ تو اللہ تعالیٰ سے ہم مال کی وُسعت اور خیر مانگا کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہم _