گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
جو اپنے عہدے کی وجہ سے تحفے قبول کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے فرائض انجام دیتے ہیں ، یا جیسے امامِ مسجد، خطیب اور دنیاوی عہد یداران کے لیے بھی ہدایا قبول کرنے میں بہت احتیاط اور خیال کرنے کی ضرورت ہے۔حضرت ابو حُمید ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عُمّال کا (زکوٰۃ وصول کرنے والوں کا) ہدیہ لینا خیانت ہے۔ (مسند احمد: رقم 23090)وہ مقرر کیے گئے ہیں ، لوگوں کے پاس Duty bound ہیں ، اور ان کو اُن کا وظیفہ مل رہا ہے۔ اگر کوئی آدمی واجب سے زیادہ دیتا ہے تو وہ سب اُمت کے لیے ہے، اکیلے اس وصولی کرنے والے کے لیے نہیں ہے۔لہٰذا وہ اسے اپنے گھر نہیں لے جاسکتا۔ اس میں حدیث سنیے! حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس شخص کو ہم کسی عمل پر عامل بنائیں (زکوٰۃ اور صدقات کی وصولی کا) اور اسے طے شدہ وظیفہ دیں (وہ اس کے لیے حلال ہے) پھر اس کے بعد جتنا وہ کسی سے لے گا وہ خیانت ہے۔ (سنن ابی داؤد: رقم 2943)حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: امیر کا ہدیہ لینا رشوت ہے، قاضی کا ہدیہ لینا رشوت ہے۔ (کنزالعمال: 112/6)یعنی عہدے کی وجہ سے کسی سے کسی چیز کا لے لینا اسے رشوت فرمایا گیا ہے۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو نصیحت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یمن کی طرف حاکم بنا کر بھیجا۔ خود فرماتے ہیں کہ میں روانہ ہوگیا تو اچانک میں نے دیکھا کہ میرے پیچھے کوئی آدمی بلانے کے لیے _