گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
آج اِن شاءاللہ تہجد کے متعلق بیان ہوگا۔ یہ امت جب اللہ تعالیٰ کے سامنے روتی تھی تو دن میں مخلوق کے سامنے ہنستی تھی۔ اب یہ رات کے وقت سوتی ہے اور دن میں مخلوق کے سامنے سارا دن روتی ہے۔ پہلے وقتوں میں یہ زمانہ بھی گزرا ہے کہ لوگوں کی نفل یا تہجد بھی قضا ہوجاتی تھی تو لوگ روتے تھے۔ اور آج وہ زمانہ آگیا ہے کہ فرض نماز بھی قضا ہوجائے تو ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ جب یہ امت تہجد کے چھوٹ جانے کے غم میں روتی تھی تو دنیا میں اس کو عزتیں حاصل تھیں ۔ آج فرض چھوٹ جانے پر بھی نہیں روتی تو لوگوں کے سامنے ذلیل ہو رہی ہے۔ جس طرح دنیا داروں کی راتوں کا اندازہ اُن کے دنوں کی کمائی سے ہوتا ہے۔ جو دن کو جتنا زیادہ کماتا ہے، رات کے وقت وہ اتنے ہی زیادہ مزے اُڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ دین داروں کے دن کا اندازہ اُن کی راتوں سے ہوتا ہے کہ رات کے وقت وہ جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں ، دن کے وقت اللہ ربّ العزّت ان کو اتنی ہی زیادہ عزتیں عطا فرماتے ہیں ۔حضرت جی دامت برکاتہم کا جواب بہت سے علماء طلباء اور طالبات یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو پڑھنے اور پڑھانے کا کام کرتے ہیں ، ہمیں تہجد کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے محترم حضرت جی پیر ذو الفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تو دوکانداریاں کیا کرتے تھے، کیا اس لیے وہ تہجد پڑھتے تھے؟ بہت ساری عورتیں تو یہ کہہ دیتی ہیں کہ ہمارے بچے ہیں ، ہم سے تہجد نہیں پڑھی جاتی۔ حضرت جی دامت برکاتہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ بھئی! کیا پہلے عورتوں کے بچے نہیں ہوتے تھے؟ تو معلوم ہوا کہ تہجد کی نماز پڑھنی ہے۔ اور اس نماز کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ _