گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
سے زیادہ کبھی نفع نہیں لیا۔ تو یہ ان کی تجارت کرنے کی ترتیب تھی۔ نفع کو 5 فیصدسے زیادہ لے سکتے ہیں ، مگر مقصد یہ ہے کہ انسان تجارت کو اللہ کے خوف کے ساتھ کرلے۔امامِ اعظم رحمہ اللہ تعالی کا تقویٰ: (۱) امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی نے ایک مرتبہ ایک آدمی کو اپنا وکیل بنا کر، سامانِ تجارت دے کر بھیجا اور کہا کہ تم مصر جاؤ اور وہاں یہ سامان سیل کرو۔ اس سامانِ تجارت کی نوعیت یہ تھی کہ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ کا نفع ہونا چاہیے تھا۔ اس وکیل نے مارکیٹ دیکھی اور پھر اس نے اپنے مال کی Values نکالی۔ اور پھر اس نے سامان روک لیا اور نہیں بیچا۔ جب سارے قافلے والوں نے اپنا اپنا مال سیل کر دیا، پھر اس نے اپنا مال سیل کیا اور ڈبل قیمت یعنی 10 کی چیز 20میں بیچی۔ اور آخری مال کو ڈبل سے بھی زیادہ بیچا جیسا کہ ہمارے ہاں بھی آخری مال کو زیادہ قیمت پر خرید لیا جاتا ہے۔جب وہ آدمی واپس آیا تو امام صاحب رحمہ اللہ تعالی کے پاس اَڑھائی لاکھ کا نفع لے کر پہنچا جبکہ نفع کا اندازہ ایک لاکھ کا تھا۔ اب جب امام صاحب رحمہ اللہ تعالی کے پاس اڑھائی لاکھ نفع میں آیا تو امام صاحب حیران ہوگئے اور اس وکیل سے کہنے لگے کہ یہ تم نے کیا کیا؟ اتنا نفع تمہیں کہاں سے مل گیا؟ اس آدمی نے کہا کہ جناب! میں نے پوری مارکیٹ کو دیکھا، پورا سروے کیا، ایک ایک بات نوٹ کی کہ کب کہاں کس کو میرے مال کی ضرورت پڑے گی۔ اس نے اپنا نفع کمانے کی ساری کہانی سنائی۔ امام صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اس سے کہا کہ یہ احتکار (ذخیرہ اندوزی) ہے کہ ضرورت کے وقت مال کو روک کر رکھنا اور بعد میں اسے مہنگا کر کے بیچنا۔ اور کہا کہ اب میں کس کس گاہک کو کہاں کہاں تلاش کروں ؟ اب انہوں نے Total رقم مع منافع کے صدقہ کردی۔ یہ ان کا تقویٰ تھا۔ اللہ اکبر کبیراً! _