گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
خریدا۔ پھر اس سے کہا کہ تیر ا یہ گھوڑا تو تین سو درہم سے زیادہ کا ہے، کیا تم اسے پانچ سو درہم کا بیچو گے؟ اس شخص نے کہا کہ آپ کی مرضی۔ چناں چہ آپ نے سو درہم زیادہ کرکے دے دیے۔ اس کے بعد پھر مذکورہ بات کہی اور سو روپے مزید دے دیے۔ اس طرح کرتے کرتے آٹھ سو درہم اس کے حوالے کر دیے اور گھوڑا لے لیا۔ کسی نے اس پر اعتراض کیا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اس بات پر بیعت کی ہے کہ ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنی ہے۔ (مرقاۃ شرح مشکوۃ: رقم 4967)مسلمان تاجر اور اشاعتِ اسلام: انڈونیشیا اور ملائیشیا وغیرہ کے لوگ کیسے مسلمان ہوئے؟ ان ممالک میں پہلے پہل کوئی فوجیں یا علماء نہیں پہنچے، بلکہ مسلمان تاجر پہنچے تھے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ دوسری صدی ہجری کے اختتام اور تیسری صدی ہجری کی ابتدا میں مسلمان تاجروں کا ایک قافلہ مغربی انڈونیشیا کے سب سے بڑے جزیرے سماٹرا کے راستہ پہنچا۔ یہ پہلا قافلہ تھا جو اس راستے سے آیا۔ اس کے بعد پھر دیگر ساحلی علاقوں سے بھی قافلے آتے رہے۔ وہیں پر انہوں نے دوکانیں کھولیں ۔ چند ہی دنوں میں ان کی سچائی اور امانت داری کو دیکھتے ہوئے وہاں کے مقامی لوگ مقامی دوکانوں سے سودا خریدنے کی بجائے ان سے خریدنے لگے۔ وہاں کے تاجر پریشان ہوگئے کہ ہم بھی اسی ملک کے ہیں ، خریدنے والے بھی اسی ملک کے ہیں ، مگر ہمارے پاس گاہک نہیں آ رہے، اور ان باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں کے پاس گاہکوں کی لائن لگی ہوتی ہے۔ تاجر وفد بنا کر مسلمانوں کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تمہارے پاس کیا عمل ہے؟ ایسا کیا کرتے ہو کہ گاہک ہم سے سودا نہیں لیتے بلکہ تم سے لیتے ہیں ۔ حالاں کہ تم لوگ دن کے کچھ حصے میں دوکانیں بند بھی کرتے ہو؟مسلمان تاجروں نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں ، اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان _