گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
داروں سے متعلق جواب دینا ہوگا۔ خرچ اللہ تعالیٰ کے اور نبیﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر ہی کرنا ہے۔ادائیگی حقوق پر اللہ تعالیٰ کا معاملہ حضرت جی دامت برکاتہم سے بہت مرتبہ یہ بات سُنی کہ بعض لوگوں کو اللہ ربّ العزّت مال ان کی اپنی ذاتی ضرورت سے بہت زیادہ عطا فرماتے ہیں ۔ وہ سارا اُن کا نہیں ہوتا۔ اگر وہ زکوٰۃ بھی ادا کرتے رہیں ، گھر والوں کا نان نفقہ بھی پورا کرتے رہیں ، شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے قریبی رشتے داروں کو بھی دیکھتے رہیں اور لوگوں کی بھی مدد کرتے رہیں ، سائلین کی بھی مدد کرتے رہیں ، طلباء، مدارس اور نیک لوگوں کا بھی خیال کرتے رہیں ، علماء کا بھی خیال کرتے رہیں ، تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے اس منصب پر باقی رکھتے ہیں ۔ یہ میں نہیں کہہ رہا رسول اللہﷺ کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے منصب پر باقی رکھتے ہیں ، ان کا مال کم نہیں ہوتا، گھٹتا نہیں ۔ نبی کریمﷺ نے گارنٹی دے دی کہ اُن کا مال کم نہیں ہوتا۔ہاں ! اگر یہ حقوق میں کوتاہی کریں ، خرچہ دینے میں کمی کریں ۔ مانگنے والوں کو اور قریبی لوگوں کو محروم کریں اور کسی پر خرچ نہ کریں ۔ پھر اللہ ربّ العزّت اکثر اوقات ان سے مال کو واپس لے لیتے ہیں اور یہ ڈیوٹی کسی اور کو دے دیتے ہیں ۔ آپ نے بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ جی! پہلے تو بہت اچھے تھے، مٹی کو ہاتھ لگاتے تو سونا بن جاتی تھی۔ اور اب سونے کو ہاتھ لگاتے ہیں تو مٹی بن جاتا ہے۔ ذرا غور تو کریں اپنے اس زمانے پر، جب وہ مٹی کو ہاتھ لگاتے تھے اور وہ سونا بن جاتی تھی۔ اُس وقت ان کی _