گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
ہو ہی رہی تھی، سودا پکا نہیں ہوا تھا کہ میں نے کہا: میں ابھی آتا ہوں ، آپﷺ یہیں رکیں ۔ وہ صحابی فرماتے ہیں کہ میں اس بات کو بھول گیا۔ جب تین دن بعد مجھے یاد آیا اور میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف پلٹا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم وہیں موجود تھے۔ صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے اس پر معافی مانگی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اے جوان! تم نے مجھے تکلیف میں ڈال دیا تھا۔ میں تین دن سے تمہارا یہیں پر انتظار کر رہا ہوں ۔ (سنن أبي داود: کتاب الأدب، باب في العدّۃ، رقم 4996)یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے وہ تجارتی اُصول ہیں جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تجارت میں کامیابی حاصل کی۔ اور اپنی امت کے نمونہ بنے۔آپﷺ کی صداقت اور امانت: کفارِ مکہ جنہوں نے اعلانِ نبوت کے بعد دشمنی کی وجہ سے آزمائشوں کے پہاڑ توڑ دیے۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جادوگر کہا، کاہن کہا، مجنون کہا۔ لیکن انہوں نے چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اتنے قریب سے دیکھا ہوا تھا، لہٰذا دشمنی کے بعد بھی یہ نہ کہہ سکے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خائن ہیں ، وعدہ خلاف ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جھوٹا کوئی نہیں کہہ سکا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دو صفات صداقت اور امانت کی خصوصیت لوگوں میں تجارت کی وجہ سے زیادہ ہوئی تھی۔ ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ جسم کا جو حصہ حلال سے بنے گا وہ حلال کام کرے گا، اور جسم کا جو حصہ حرام سے بنے گا اس کو حرام کام کیے بغیر چین نہیں آئے گا۔ اس لیے حلال کا اہتمام بہت زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے حلال مانگنے سے حلال مل جاتا ہے۔ میرے بھائیو! ابھی زندگی باقی ہے۔ آج اگر ہم توبہ کریں گے توہم سب کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف کر دیں گے۔ اللہ پاک بڑے کریم ہیں ، بڑے مہربان ہیں ۔ _