گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
مفلسی سے حفاظت: ایک ہوتا ہے سچ بولنا، اور ایک ہوتا ہے سچائی والا معاملہ کرنا۔ تاجر میں یہ دونوں صفات ہونی چاہییں ۔ علمائے کرام نے کتابوں میں لکھا ہے کہ سچا تاجر کبھی مفلس نہیں ہوتا۔ آج ہمارے مشاہدے میں بھی یہ بات ہے کہ جو بندہ قیمت صحیح لگاتا ہو، اور سودا بھی کھڑا کرتا ہو، تو لوگ اس سے مال خریدنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ کئی لوگوں کو تو میں بھی جانتا ہوں ، آدھا آدھا گھنٹہ اُن کی دوکان نماز کے لیے بند ہوتی ہے مگر لوگ اُن کے انتظار میں باہر کھڑے رہتے ہیں کہ سودا انہی سے لینا ہے۔ کوئی پٹرول پمپ والا ہو، لیٹر کے حساب سے پورا پیٹرول دیتا ہو، میٹر صحیح ہو تو لوگ کہتے ہیں کہ اس کا میٹر صحیح ہے، پیٹرول صحیح ہے، وہیں سے لینا ہے۔ اسی طرح ہر شعبہ میں ایسے افراد جن کی سچائی لوگوں کو معلوم ہوجائے، لوگ انہی کے پاس جاتے ہیں ۔امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کی تجارت: حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی ایک بڑے فقیہ ہونے کے علاوہ تاجر بھی تھے۔ آپ امام اعظم کیوں کہلاتے ہیں کہ باقی جتنے بھی آئمہ حضراتn ہیں ، وہ امام صاحب رحمہ اللہ تعالی کے Directیا In Direct شاگرد ہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی سمیت جتنے بھی آئمہ حضرات گزرے ہیں یا تو وہ امام صاحب کے بلاواسطہ شاگرد ہیں ، یا بالواسطہ شاگرد ہیں ۔ کتابوں میں اس کے پورے دلائل موجود ہیں ۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کیسے تجارت کرتے تھے؟ چند ایک واقعات سنیں اور دل کے کانوں سے سنیں ! ایک مرتبہ دوپہر کا وقت تھا۔ امام صاحب رحمہ اللہ تعالی دوکان بند کر کے جا رہے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ نعمان! (امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کا اصل نام نعمان بن ثابت ہے) آج دوپہر کو ہی _