گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
رکھتے ہیں ۔ آپﷺ نے جو تجارت کے اصول بتائے ہیں اس کے مطابق تجارت کرتے ہیں ۔ نہ کم تولتے ہیں ، نہ جھوٹ بولتے ہیں ، نہ زیادہ بات کرتے ہیں اور مناسب گفتگو کے ذریعے خرید و فروخت کرتے ہیں ۔ اور جس وقت ہماری عبادت کا وقت آتا ہے، ہم اس وقت رزق کو چھوڑ کر رزّاق کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ اس کے قدموں پر سر رکھ دیتے ہیں ، تو وہ رزق ہمارے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔جب یہ باتیں انہوں نے سنیں تو کہنے لگے کہ ہمیں بھی وہ اصول بتاؤ، ہم بھی اچھے تاجر بننا چاہتے ہیں ۔ لکھا ہے کہ اولاً وہاں کی عوام میں دین آیا۔ اور یہ محنت بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ ان کے بادشاہ نے بھی دینِ اسلام کو قبول کرلیا۔ (اطلس تاریخ اسلام از حسین مؤنس: ص 380)ایک کتاب میں یہ روایت بھی ہے کہ انڈونیشیا کے کچھ تاجر خلیفہ ہارون رشید (خلافتِ عباسیہ) کے زمانے میں بغداد آئے۔ جب یہ لوگ واپس جانے لگے تو سب کے سب دینِ اسلام سے جُڑ چکے تھے۔ اور یہی لوگ اپنے ملک میں اشاعتِ اسلام کا ذریعہ بنے ہیں ۔ واللہ اعلم! (تاریخِ اسلامی از محمود شاکر: 368/20)کتنی عجیب بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بازار میں یہودی ایک طرف سے داخل ہوتے تھے اور دوسری طرف سے نکلتے تھے تو کلمہ پڑھ کر نکلتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اعمال اور ان کی تجارت کے انداز کو دیکھ کر ان کی زبانوں سے کلمہ جاری ہوجاتا تھا۔ آج ہمارے بازاروں میں کوئی آتا ہے تو جب دوسری طرف سے نکلتا ہے تو بعض اوقات گالیاں دیتے ہوئے نکلتا ہے۔ لوگوں کے اعمال میں کتنا فرق آگیا ہے۔ اگر ہم ان باتوں پر عمل کی نیت سے دھیان دیں گے تو ان شاء اللہ عمل کی توفیق ملے گی۔تجارت کے مسائل سیکھنا: حضورِپاکﷺ نے ارشاد فرمایا: سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء اور _