گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
رسول اللہﷺ سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے کہ جو شخص قرض لیتا ہے اور اللہ کے علم میں ہوکہ وہ اس کو ادا کرنے کا پورا پورا ارادہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا قرضہ دنیا ہی میں ادا کروا دیتے ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ: 2401)اتنا پختہ یقین تھا کہ یہ قرض تو میں لوگوں سے لے رہی ہوں ، مگر میرا اللہ اس کو ادا کروائے گا۔ معلوم ہوا کہ بندے کا معاملہ تو اس کی نیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ ربّ العزّت تو ’’یعلم ما فی الصدور‘‘ یعنی دلوں کے بھیدوں کو جانتے ہیں ۔ ہاں ! جولوگوں کے قرضوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں ، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں پشیمانی، ذلت اور رسوائی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ حتی المقدور قرض لینے سے بچے۔ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک شخص کو وصیت کی اور فرمایا کہ گناہ کم کرو تاکہ موت آسان ہوجائے، اور قرض لینے والا معاملہ کم کرو تاکہ زندگی آزادی سے بسر ہو جائے۔ (شمائل کبریٰ حصہ سوم)تنگی دور ہونے کا واقعہ پچھلی اُمتوں میں ایک تاجر آدمی کی مغفرت اس بات پر ہوئی کہ اس کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں بہت غریب ہوں ، پریشان ہوں ، میری مدد کرو۔ وہ عورت اس کی تاجر کی چچازاد بہن تھی۔ اس آدمی نے کہا کہ تم میری ضرورت اور خواہش پوری کرو، میں تمہاری مالی ضرورت پوری کروں گا۔ وہ عورت چلی گئی اور بات نہ مانی اور کہا کہ میں تو اللہ ربّ العزّت سے ڈرتی ہوں ۔ وہ عورت بار بار پیسے مانگنے آتی، مگر وہ شخص ہر بار اسے اپنی خواہش پوری کرنے پر اُکساتا رہتا کہ میری خواہش پوری کرے گی تو تیری مدد کروں گا۔ ایک مرتبہ وہ اتنی زیادہ حالات سے مجبور ہو کر اس کے پاس آئی اور کہنے لگی _