گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
پورا پورا ہوتا ہے۔ Hand to Mouthچل رہا ہے۔ انسان بس زندگی گزار رہا ہوتا ہے، اس کے پاس فضول خرچی کے لیے پیسہ ہی کوئی نہیں ۔ اب یہ تھوڑا رزق اس زیادہ سے بہت بہتر ہے جو کثرت سے تو آجائے، لیکن انسان نمائش بینی میں پڑ جائے اور اِدھر اُدھر کے کاموں میں لگ جائے۔ اولاد یا بیوی نافرمان ہوجائے۔ آئے دن بازاروں کے چکر لگنے لگیں اور نافرمانی والی جگہوں پر انسان جانے لگے۔ اس سے بہت بہتر ہے کہ انسان کے پاس تھوڑا ہو جو اس کی ضرورت کو پورا کر دے اور اسے دائیں بائیں نہ ہونے دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا چُنا ہوا بندہ ہے۔ (ابنِ ابی الدنیا: 126/2)زُہد کیا ہے؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے یمن کے کچھ لوگ ملے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنے والے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ نہیں ، بلکہ آپ لوگوں کے مال پر بھروسا کرنے والے ہیں ۔ میں آپ لوگوں کو بتاؤں کہ توکل کرنے والے کون ہیں ؟ یہ وہ ہیں جو پہلے زمین میں بیج ڈالتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہیں ۔ (شعب الایمان للبیہقی)ایک آدمی فقط اللہ اللہ کرتا جائے اور مکمل دوسروں پر انحصار کرے کہ فلاں میری مدد کرتا رہے۔ یہ اس درجے کا نہیں گو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، لیکن زیادہ قریب اللہ تعالیٰ کے وہ ہے جو محنت کرے۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ رزقِ حلال کی فضیلت کے بارے میں ایک عجیب بات فرماتے تھے: میرا دل کرتا ہے کہ میں ایسی جگہ مروں یعنی مجھے ایسے حال میں موت آئے کہ میں (شریعت کے مطابق) بیوی بچوں کے لیے رزقِ حلال کی کمائی کی فکر میں لگا ہوں ۔ _