گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
معاملہ رسول اللہﷺ کے پاس لے کر گئے تھے۔ اور قرض دار کو چاہیے کہ وہ اپنا قرضہ ادا کرنے کی پوری فکر کرے۔ دنیا میں اگر زبردستی کر کے، اس کے گھر کا سامان تک قرضہ کے طور پر نکلوادیا گیا تو اب یہ مقروض یہ سوچے کہ قیامت کے دن کی سختی کی نسبت یہ معاملہ پھر بھی آسان ہے کہ وہاں روزِ محشر تو ہمارے پاس کوئی مال و متاع نہیں ہوگا۔ پہلے بھی یہ بات بیان ہوچکی کہ نبی کریمﷺ مقروض کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھاتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپﷺ دریافت فرماتے کہ کیا تمہارے ساتھی نے قرضہ ادا کرنے کے لیے مال چھوڑا ہے؟ (اگر اس پر قرضہ ہے) اگر لوگ جواب دیتے کہ ہاں ! چھوڑا ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیتے تھے۔ وگرنہ فرماتے کہ تم لوگ اپنے اس ساتھی کی نمازِ جنازہ ادا کرلو۔ (صحیح بخاری: رقم 2298، صحیح مسلم: رقم 1619)یعنی اس کے مال سےپہلے قرضہ ادا ہوتا تھا، پھر اس کے بعد وراثت اور ترکہ وغیرہ کی تقسیم ہوتی تھی۔ اگر لوگ رسول اللہﷺ سے عرض کرتے کہ اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے مال نہیں چھوڑا ہے (یعنی مقروض مرا ہے اور مال بھی نہیں چھوڑا) تو پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایسے بندے کی نماز جنازہ نہیں پڑھاتے تھے۔ لیکن اگر کوئی شخص کہہ دیتا کہ اے اللہ کے نبی! اس کا قرض میرے ذمے ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: رقم 2169)قرضے کی عدم ادائیگی پر وعید ایک حدیث میں آتا ہے کہ مقروض اپنے قرضے کی وجہ سے قید میں رہتا ہے یہاں _