گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی ہیں جو پانچویں خلیفۂ راشد ہیں ۔ (تاریخِ دمشق لابن عساکر: 6494)جب والدین حلال اور خدا خوفی کا اہتمام کریں گے تو اولادیں ایسی ہوں گی جو دنیا کے اندر بھی اور آخرت میں بھی والدین کے لیے برکتوں کا ذریعہ بنے گی۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مال تقسیم کرنا: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تاجر تھے۔ عجیب تجارت کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اُن کا تجارتی مال ایسے وقت میں مدینہ طیبہ پہنچا جب قحط کی حالت تھی۔ لوگوں کو پتا چلا کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا تجارتی مال آیا ہے جس میں اناج، غلہ وغیرہ بھی ہے۔ بڑے بڑے تاجر آپ کے پاس آگئے۔ تاجروں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہ سارا مال ہمیں بیچ دو،سو کے دو سو لے لو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں ، تھوڑا بتا رہے ہو۔ تاجروں نے کہا کہ سو کےتین سو لے لو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نہیں ، تھوڑا بتا رہے ہو۔ انہوں نے پانچ سو کہہ دیے، مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھوڑا بتا رہے ہو۔ غرض یہ کہ وہ آپس میں مشورہ کرکے بڑھاتے رہے، مگر عثمان غنی رضی اللہ عنہ یہی کہتے رہے کہ یہ تھوڑا ہے۔ مدینہ طیبہ میں قحط پڑا ہوا ہے تم سو کے پانچ سو کم دے رہے ہو، اور بڑھاؤ، مجھے تو اس سے زیادہ مل رہا ہے۔ تاجر پریشان ہوکر کہنے لگے کہ کون آپ کو اس سے زیادہ دیتا ہے؟ اس پر عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے زیادہ دیتا ہے، 10 کا وعدہ تو عام ہے، لیکن وہ پروردگار فرما رہے ہیں ستّر گنا دوں گا، اور اگر چاہوں گا تو اس سے بھی زیادہ بڑھاؤں گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی تجارت سے کسی کی مجبوری کا فائدہ نہیں اُٹھایا۔ سارا مال اللہ کے بندوں پر، ضرورت مندوں پر تقسیم کر دیا۔ _