گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
پہلے مساجد اور مدارس بیت المال سے چلتے تھے۔ علمائے کرام اور دین کی محنت کرنے والے جتنے طبقے ہوتے تھے، بیت المال سے ان کو وظائف ملا کرتے تھے۔ جس سے گھرکی ضروریات پوری ہوجاتیں اور دال روٹی چلتی رہتی تھی۔ وہ چوبیس گھنٹے دین کی محنت میں لگے رہتے تھے۔ آج وہ زمانہ ختم ہوگیا ہے تو یقیناًآج دین دار لوگوں کو خود بھی اپنے پاس مال رکھنا ضروری ہے تاکہ ان کی عزّت بھی قائم رہے اور وہ خود عزّتِ نفس کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارسکیں ۔ ساتھ ہی ساتھ دین کے معاملے میں ، دین کی لائن میں مال خرچ کرنے والے بنیں ۔ یہ مال فی نفسہ برا نہیں ہے۔ بلکہ اچھے آدمی کے پاس زیادہ مال کا ہونا یہ نعمت کی بات ہے۔نیک آدمی کا مال دار ہونا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بہت بڑے صحابی تھے اور امیر مالدار صحابی تھے، تجارت والے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی امیر ترین صحابہ میں سے تھے۔ ان کے علاوہ اور بھی صحابہ رضی اللہ عنھم ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خوب مال عطا فرمایاتھا۔ایک حدیث میں آتا ہے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اس مالداری میں کوئی حرج نہیں جو خوف اور تقویٰ کے ساتھ ہو۔ (الادب المفرد: رقم 124)جو خوفِ خدا اور تقویٰ کے ساتھ ہو اس مالداری میں کوئی حرج نہیں ، بلکہ وہ اچھی بات ہے۔ حدیث شریف ہی میں آتا ہے: نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلْمَرْءِ الصَّالِح. (الأدب المفرد للبخاري: رقم 309)ترجمہ: ’’نیک آدمی کے پاس نیک مال کیا ہی بہترین چیز ہے‘‘۔اگر خوفِ خدا بھی ہو، تقویٰ بھی ہو اور اس کے ساتھ مالداری آجائے تو یہ نعمتوں پر _