گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
گا۔ تو تجارت سے مقصود ہمارا یہی ہونا چاہیے کہ زندگی اس انداز کے ساتھ گزارنی ہے کہ ہمیں کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں ، بیوی بچوں کی اچھے انداز سے پرورش ہوسکے۔مال کا حق ادا کرنا: ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ ہمارے پاس جو مال ہے اس کاحق ادا کرنا ہے۔ حق ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مال کی زکوٰۃ ادا کرتے رہنا، کوئی رشتے دار غریب ہے تو جہاں تک ممکن ہو اس کی مدد کرتے رہنا۔ ان چیزوں سے مال کبھی کم نہیں ہوتا۔ آپ لوگوں میں بڑے بڑے تاجر حضرات بھی بیٹھے ہیں ۔ آپ لوگوں سے سوال پوچھتا ہوں ۔ زندگی میں کبھی اس کا جواب لا کر دے دیجیے۔ کیا کبھی آپ کو ایسا شخص ملا جس نے اللہ کے راستے میں خوب مال خرچ کیا ہو، مدرسے بنائے ہوں ، دین کا کام کیا ہو، لوگوں کی، رشتے داروں کی مدد کی ہو اور وہ کنگال ہوگیا ہو؟ یہ ہوہی نہیں سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا، صدقہ دو۔(مسند احمد: رقم 1677)نبی صلی اللہ علیہ و سلم قسم نہ بھی کھاتے تب بھی بات پوری تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قسم کھا کر بات کو اور زیادہ مؤکد کر دیا۔ اس کے علاوہ آپ کو بے شمار ایسی مثالیں ملیں گی کہ جنہوں نے بینکوں سے لاکھوں کروڑوں نہیں ، بلکہ اربوں لیا ہوگا مگر برباد ہوگئے ہوں گے۔ صدقہ دینے میں بظاہر لگتا ہے کہ جا رہا ہے، مگر دوسری طرف سےلگتا ہے کہ آرہا ہے۔ اور سود لینے میں لگتا ہے کہ آرہا ہے، لیکن وہ اصل بھی لے جاتا ہے۔ جو انسان کثرت سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے، اس کو کبھی کمی کا معاملہ پیش نہیں آئے گا۔ اور آگے سنیے کہ ہمارے اکابرین رزقِ حلال کا کتنا خیال رکھا کرتے تھے۔_