گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
ہر ضرورت مند کا مالدار پر حق ہے وَ اَمَّا السَّآىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ۰۰ (الضّحٰی: 10)ترجمہ: ’’اور جو سوال کرنے والا ہو، اسے جھڑکنا نہیں ‘‘۔حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۰۰ لِّلسَّآىِٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ۰۰ (المعارج: 25,24)ترجمہ: ’’اور جن کے مال و دولت میں ایک متعین حق ہے، سوالی اور بے سوالی کا‘‘۔دیکھو! خاندان میں کس کو زیادہ ضرورت ہے، اس کو دو۔ کوئی مانگنے والا سائل آجائے، اس کو دو۔ پوری ایک ترتیب ہے۔ اگر کوئی آدمی صرف بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے اور بہن بھائیوں کو ضرورت ہے، اور بہن خدانخواستہ طلاق ہوچکی گھر آگئی۔ ہمارے معاشرے میں وہ بچی جسے خدانخواستہ حادثہ طلاق پیش آجائے، یہ جب ہمارے گھر میں آتی ہے تو اس کی حیثیت ایک ماسی، ایک کام والی اور ایک جمعدارنی اور ایک بھنگن سے زیادہ نہیں ہوتی۔ شریعت نے حکم دیا کہ یہ بھائی کی ذمہ داری ہے کہ اس کے اخراجات کو پورا کرے، بوجھ نہ سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کرے۔جس آدمی کے پاس مال ہے ہی نہیں ، اسے شریعت نہیں کہتی کہ تم سارے خاندان پر خرچ کرو۔ خاندان کی طرف کس کو متوجہ کیا جا رہا ہے؟ جسے اللہ تعالیٰ نے وُسعت دی ہے۔ اب ایک آدمی کام کر رہا ہے، اس کی اچھی آمدنی ہے اور اسی کے سگے بھائی کا کام نہیں ہے، اور یہ اس پر خرچ نہیں کر رہا تو کیا عنداللہ یہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے وسعت سے نوازا، چھوٹ جائے گا؟ قریبی رشتہ دار مثلاً خالہ، پھوپھی وغیرہ آدمی کی ذمہ داری میں آتے ہیں ۔ آدمی اپنے سارے خرچے پورے کر رہا ہے اور اُن کی جائز ضرورت کو نہیں پوچھتا جبکہ اس کے پاس گنجائش بھی ہے، تو قیامت کے دن اسے اپنے رشتے _