گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
مرد سمجھتا ہے کہ میں نے کوئی کام شروع کیا، وہ کام اگر نہیں چلا تو میں نامراد ہوگیا۔ ارے بھائیو! نامراد حقیقت میں وہ ہوتا ہے جو اپنے اللہ کو نہ پاسکے۔ ہماری سب سے بڑی مراد تو اللہ پاک کی ہی ذات ہے۔ نامراد تو وہ بندہ ہے جس کا خاتمہ ایمان پر نہ ہو۔ نامراد وہ ہے جس کی قبر آگ کا گڑھا بن جائے۔ نامراد تو وہ شخص ہے جو قیامت کے دن جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے۔ اور بامراد وہ شخص ہے جسے اس دنیا میں اتباعِ سنت کی توفیق مل جائے، جس سے اللہ راضی ہوجائے، اور قیامت کے روز اللہ کے رسولﷺ راضی ہوجائیں ، اور جسے جنت میں بلا حساب داخلہ مل جائے۔ تو مرادیں اصل میں یہ ہے۔ مگر ہم لوگوں نے ضرورت کو اپنی مرادیں بنا ڈالا ہے۔نیک عمل کے متعلق اللہ سے مانگیں کہ اللہ! ہمیں بیچ رات میں تہجد کی توفیق، اور سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھنے کی توفیق عطا فرما۔ پھر دیکھیے کہ اللہ پاک کیسے ہمیں دنیا اور آخرت کی مرادیں عطا فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ بڑے کریم ہیں ۔ اللہ سے مانگ کر تو دیکھیے۔دو رکعتیں دنیا ما فیہا سے بہتر حضرت عبداللہ بن عمرi کی روایت میں ہے کہ جنابِ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: درمیانی رات کی دو رکعتیں (تہجد کی نماز) پوری دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے افضل ہے۔ اور اگر میری اُمت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو ان پر تہجد کو فرض قرار دیتا۔ (ترغیب لابن شاھین: رقم 559)حدیث شریف میں دنیا ومافیہا کے الفاظ آئے ہیں کہ اس سے بہتر تہجد کی دو رکعت نماز ہے۔ دنیا بھی ختم ہوجانے والی ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ختم ہوجانے والا ہے ،لیکن ان دو رکعتوں کا ثواب قیامت تک باقی رہے گا، یہ ختم نہیں ہوگا۔ _