گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
دو، میں تمہیں اتنے دنوں بعد واپس کر دوں گا۔ یہودی نے کہا کہ نہیں ، نہ میں تمہیں اُدھار دوں گا، اور نہ میں تمہیں قرضہ دوں گا یہاں تک کہ رسول اللہﷺ میرے پاس اپنی کوئی چیز گروی رکھوائیں ۔ وہ صحابی واپس آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! وہ یہودی تو یہ کہتا ہے کہ قرض اس وقت نہیں ملے گا جب تک آپ کوئی چیز گروی نہ رکھوادیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! میں آسمان والوں میں اور زمین والوں میں سب سے زیادہ امین ہوں ، اگر وہ مجھے اُدھار دیتا تو میں وقت پر ادا کرتا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت رافع رضی اللہ عنہ کو اپنی زرہ دی اور کہا کہ یہ زرہ یہودی کو رہن رکھوا کرآئو، اور کھانے کی چیز لے آئو تاکہ مہمان کا اکرام ہوسکے۔ (سبل الہدیٰ)حضرت عبداللہ مخزومی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ غزوہ حنین کے موقع پر رسول اللہﷺ نے تقریباً تیس سے چالیس ہزار کا قرضہ لیا اور غزوہ سے واپسی پر آپ نے اس کی ادائیگی بھی کر دی۔ (دیکھیے! نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کتنی بڑی امائونٹ قرضہ لیا۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ادائیگی کردی) تو قرضہ دینے والے کو دعا دی کہ بَارَکَ اللہُ فِیْ اَھْلِکَ وَمَالِکَ. (ابن ماجہ: صفحہ 174)ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ تیرے اہل و مال میں برکت دے‘‘۔ہمیں بھی یہ چھوٹا سا جملہ یاد کرلینا چاہیے کہ جب کاروباری معاملات میں یا ویسے ہی کسی سے کوئی مال اُدھار لیں تو واپس لوٹاتے وقت یہ جملہ کہہ دیں ۔قرضے سے زائد مقدار کا حکم اگلی بات یہ ہے کہ انسان جتنا قرض لے اتنا ہی واپس دے، یہ مناسب ہے۔ لیکن اگر جتنا قرض لے اور اس سے زیادہ بہ خوشی، بغیر جرمانے، اور بغیر سامنے والے کے _