گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
قرضہ ہو اور اس نے مال بھی نہ چھوڑا ہو (یعنی غریب ہو) تو ہمارے ذمہ ہے اسے ادا کرنا، اور جس نے مال چھوڑا ہو تو وہ اس میت کے وارثین کے ذمے ہے۔ (صحیح بخاری: رقم 6350)مثلاً میت اگر مال چھوڑ کر جائے اور قرضہ اس کے ذمے ہو تو وارثین کو چاہیے کہ وراثت کو تقسیم کرنے سے پہلے اس بندے کا قرضہ ادا کریں ، اس کے بعد باقی ماندہ مال کو وراثت میں تقسیم کریں ۔ یہ کام وارثین کی ذمہ داری ہے۔ شروع شروع تو نبی کریمﷺ جنازے کے موقع پر پوچھا کرتے تھے کہ اس پر قرضہ ہے؟ ادائیگی کے لیے مال چھوڑا ہے؟ اگر جواب ہاں میں ملتا تو نمازِ جنازہ پڑھا دیتے، وگرنہ فرما دیا کرتے تھے کہ تم اس کی نمازِ جنازہ پڑھ لو۔ یا کوئی صحابی اس میت کے قرضے کے ضامن بنتے، تب نبی کریمﷺ اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیا کرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو آسودگی عطا فرمائی اور فتوحات ہونے لگیں تو پھر نبی کریمﷺ نے مذکورہ کلمات ارشاد فرمائے تھے کہ اب اگر کسی کا قرضے رہ گیا ہو اور ادائیگی کی صورت نہ ہو تو محمد رسول اللہﷺ اس کی طرف سے قرضہ ادا کریں گے۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی تشریح میں یہی بات ارشاد فرمائی ہے۔گھروالوں کی ضروریات کے لیے قرض لینا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودی سے کھانے پینے کی چیزیں خریدیں اور بدلہ میں اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھوائی تھی۔(صحیح بخاری: رقم 2096)مرض الوفات میں بھی ایسا معاملہ ہوا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو گھر والوں کی ضروریات کے _