گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
ایک تو یہ وجہ کہ تازہ تازہ صدمہ ہوتا ہے تو ان کی حالت پریشانی والی ہوتی ہے، اپنے نفع نقصان کا خیال نہیں رہتا۔دوسری وجہ یہ ہے کہ رواج میں ہی پڑگیا ہے کہ بہنوں کو حصہ دینا ہی کوئی نہیں ہے۔ بہنیں حصہ مانگ لیں تو لگتا ہے کہ جیسے بہنوں نے دشمنی کرلی ہے۔تیسرا یہ کہ اس حالت میں ان کو اپنے حق کی خبر ہی نہیں ہوتی ہے کہ میرا حصہ کتنا ہے۔ تو اس بات پر فتویٰ ہے کہ کوئی کہہ بھی دے کہ میں نے اپنا حصہ نہیں لینا تو حق معاف نہیں ہوتا۔بروزِ قیامت ایک دوسرے سے فرار اس میں دو باتیں اور ہیں ۔ دنیا میں تو وہ اپنا حق معاف کر دیتی ہیں ، قیامت کے دن جب اس عورت کو اپنی پڑی ہوگی اور جنت میں جانا ہوگا اور وہاں جب اسے پتا چلے گا کہ میں نے اپنے بھائیوں سے حصہ لینا ہے اور وہ وہاں کھڑا ہے۔ میرے پاس Option ہے، میں اپنے بھائی پر مقدمہ کرسکتی ہوں ، اپنا حصہ لے سکتی ہوں ۔ وہاں وہ عورت اپنی جنت کی حرص میں اپنے بھائی پر مقدمہ کر کے اپنا حصہ لے لے گی اور جہنم میں جانا پسند نہیں کرے گی۔ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِۙ۰۰۳۴ وَ اُمِّهٖ وَ اَبِيْهِۙ۰۰۳۵ وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِيْهِؕ۰۰۳۶(عبس: 33-36)ترجمہ:’’یہ اس دن ہوگا جب انسان اپنے بھائی سے بھی بھاگے گا۔ اور اپنے ماں باپ سے بھی۔ اور اپنے بیوی بچوں سے بھی‘‘۔ اب بھائی کو سوچنا چاہیے کہ وہاں آخرت میں کیا کرے گا؟ جب بہنیں آپ کی ساری نیکیاں لے جائیں گی۔ _