گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:تم آپس میں ہدیہ دو، اس لیے کہ ہدیہ دل کی گھٹن کو ختم کرتا ہے۔ (سنن ترمذی: 2130) علامہ ابنِ عبدالبر رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اتباعِ سنت میں ہدیہ دینے کی وجہ سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے اور نفرت ختم ہوجاتی ہے۔ (فتح المالک: 358/9)تو ساس بہو کے جھگڑوں ، گھریلو جھگڑوں کو ختم کرنے کا نبوی طریقہ ہے کہ آپس میں ہدیہ دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی ترغیب دی ہے۔ لیکن بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان ایسے آدمی سے ہدیہ لے لیتا ہے جس نے اس کے پیسے دینے ہوں ، جو اس کا مقروض ہو۔ مقروض آدمی سے ہدیہ لینا منع ہے۔ یہ سود میں شامل ہوجاتا ہے۔اپنے قرضدار سے ہدیہ لینے کی ممانعت حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی دوسرے کو قرض دے اور یہ مقروض اسے ہدیہ پیش کرے، تو اسے قبول نہ کرے۔ اپنی سواری پر بٹھائے تو اس کی سواری پر نہ بیٹھے۔ ہاں ! اگر قرضے کا معاملہ ہونے سے پہلے آپس میں ہدیہ لینے دینے کا معاملہ تھا، تب ٹھیک ہے (ورنہ نہیں )۔ (سنن ابن ماجہ: رقم 2432)کیوں کہ جس شخص کو قرض دیا گیا ہے اس سے ہدیہ لینا، یا کسی قسم کا نفع حاصل کرنا یہ درست نہیں ، یہ سود کی ایک شکل ہے۔ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ آیا تو میری ملاقات حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا: آپ جس جگہ سے آئے ہیں ، وہاں سود عام ہے۔ پس اگر آپ کا کسی آدمی پر کوئی حق ہو (مثلاً آپ نے کسی کو قرضہ دیا _