گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
نہیں پڑھا سکتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے۔ فرمانے لگے کہ اے اللہ کے نبی! اس شخص کے ذمے کسی کے دو دینار ہیں ، وہ میں اپنے ذمے لیتا ہوں (میں اس کو اداکروں گا، آپ اس کا جنازہ ادا کر دیجیے) پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اے علی! اللہ تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ اللہ تمہیں جہنم سے آزاد کروائے جیسا تو نے اپنے بھائی کو قید سے آزاد کرایا۔ (ترغیب: 2/607)یعنی اس کے قرض کی ادائیگی کر دی۔ تو معلوم ہوا کہ یہ بھی سنت ہے تو کوشش کریں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے، کبھی ایسا کوئی موقع ملے کسی کا قرضہ ادا کرنے کا تو اس کو کریں ۔ کسی کے جیتے جی انسان تو مدد کر دیتا ہے، کیوں کہ وہ تو بدلہ بھی دے سکتا ہے، مگر کسی کے مرنے کے بعد مدد کرنا، اس کو قرض کے بوجھ سے جہنم کی آگ سے آزاد کرانا اور قرض کے بوجھ سے نجات دلانا واقعی ایک بڑا عمل ہے اور ایک مبارک سنت بھی ہے۔مقروض کے لیے سفارش کرنا ایک مرتبہ نبی کریمﷺ اپنے حجرہ مبارکہ میں تھے کہ دو آدمی مسجد نبوی میں آئے۔ ایک حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور دوسرے ابنِ ابی حدرد رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا ابنِ ابی حدرد رضی اللہ عنہ نے قرضہ دینا تھا۔ دونوں میں بات چیت شروع ہوگئی، اور بات چیت کے دوران دونوں کی آوازیں کچھ بلند ہوگئیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر تک آواز پہنچی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے گھر کا پردہ اُٹھایا۔ اور کعب رضی اللہ عنہ کو آواز دی: اے کعب! حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! (فرمائیے) نبی کریمﷺ نے اشارے سے کہا کہ تم آدھا قرضہ معاف کر دو۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے _