گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
(جھوٹی ہو یا سچی) اپنی خرید و فروخت کو صدقے سے ملا دو۔ (سنن ابی داؤد: رقم 3326)یعنی اپنے مال سے کثرت سے صدقہ اور خیرات دو، تا کہ جو لغویات یا سچی جھوٹی قسمیں کھائی ہیں ، اس کی کچھ نہ کچھ تلافی ہو جائے اور یہ صدقہ خیرات سے ہی ممکن ہے۔ اس لیے کہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصے کو دور کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم رحمۃ اللعالمین ہیں ۔ آپ کی خواہش یہ تھی کہ ہر امتی جنت میں چلا جائے اور دنیا میں ہی اپنی بخشش کرواکر رخصت ہو۔ جو اس دنیا میں بخشش نہیں کرواسکیں گے اور رہ جائیں گے تو اِن شاء اللہ ان کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کام آئے گی۔اسی لیے بات سمجھائی کہ معاملات کے دوران اگر اونچ نیچ ہوجائے تو وہ یہاں پر ہی کثرت کے ساتھ صدقہ نکال لیں تاکہ کمی بیشی پوری ہوجائے۔مال کا حلال ہونا ضروری ہے: دوستو! مال کا حلال ہونا بے حد ضروری ہے۔ اگر مال حلال ہوگا تو رات میں نیند اچھی آئے گی اور اولاد بھی آپ کی خدمت کرے گی۔ اور اگر خدانخواستہ مال حلال نہیں ہوگا تو کروڑ پتی بھی ہوں گے، ارب پتی بھی ہوں گے مگر رات کو نیند نہیں آئے گی۔ تکلیف میں ہوں گے، نیند کی دوائیاں لینی پڑیں گی، مگر نیند نہیں آئے گی۔ اسی طرح حرام کھانے والا اولاد کی خوشیوں سے محروم رہے گا۔ اگر ہمیں اولاد کی خوشیاں چاہیے، دنیا کا سکون چاہیے، تو یقیناً ہمیں حلال کی طرف آنا ہوگا۔ جتنی ہم مال کمانے میں ہیرا پھیری کریں گے، یہ سب پلٹ کر ہماری ہی طرف آجانی ہے۔ یہ چرب زبانیاں ، زبان سے نکلے ہوئے بول یہ سب واپس پلٹ کر ہمیں آکر پڑتے ہیں ۔ اس لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اور وہ لوگ جو Dealing کرتے ہیں ، لینے اور دینے میں بے احتیاطی کرتے ہیں ، ان لوگوں کو اپنے اعمال نامے کی زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ صبح سے شام تک جو گاہک کے سامنے بول _