گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
چناں چہ حضرت داؤد علیہ السلام زرہ بناتے اور اس سے حاصل کمائی کو استعمال کرتے تھے۔ علماء نے اس حدیث سے اس بات کو واضح کیا ہے کہ ملازمت سے بہتر ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرے۔ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے: کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا نہیں کھایا۔یعنی اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھانا پسندیدہ ہے۔ ایک صحابی حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کونسی کمائی بہتر ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے ہاتھ سے کماکر کھانا اور بیعِ مبرور۔ (التلخیص الحبیر: باب ما یصحّ بہ البیع)یعنی ہاتھ میں کوئی ہنر ہو، اور انسان اس ہنر کی مدد سے مال کمائے۔ جیسے کپڑا بننا، برتن بنانا، سلائی کرنا وغیرہ۔ الغرض جس میں محنت شامل ہو اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اور اس کے بعد جس کا درجہ ہے، وہ ہے بیعِ مبرور۔ ایسی تجارت جو مبرور ہو۔بیعِ مبرور ایسی تجارت جو اللہ کےحکم اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کے مطابق ہو۔ یعنی شریعت کے مطابق خریدنا بھی ہو اور بیچنا بھی ہو۔ شریعت کے لحاظ سے جو چیزیں منع ہیں انسان اس سے اپنے آپ کو بچائے۔ دھوکہ نہیں دینا، سودی طریقہ اختیار نہیں کرنا، فاسد معاملہ نہیں کرنا، مشتبہ اُمور سے بچنا۔ اس طرح سے انسان جب معاملات کرے گا تو اسے بیعِ مبرور کہیں گے۔خاتون کا سوت کاتنے کا واقعہ پرانے زمانے کی بات ہے ایک خاتون مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھنے آئیں ۔ حضرت! میں سوت کاتتی ہوں کپڑے کا۔ جیسے کہ بعضی عورتیں سویٹر بُنتی ہیں ۔ کہنے لگی کہ رات کو چاند کی روشنی میں بھی میں اس کو کرلیتی ہوں ۔ کبھی اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ دِیا _