گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
رہا ہے، وہ لکھا جارہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔آپﷺ کی تجارت کے اَحوال: حضورﷺ نے کئی تجارتی سفر کیے ہیں ۔ مختلف روایتوں میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم بارہ، تیرہ سال کی عمر کے تھے تو اپنے چچا کے ساتھ شام کی طرف تجارت کی غرض سے سفر پر گئے۔ وہاں بُحیرہ راہب کا تفصیلی واقعہ پیش آیا۔ یہاں اس واقعہ کا تذکرہ کرنا مقصود نہیں ، بلکہ یہ بتانا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی مختلف تجارتی سفر کیے ہیں اور تجارت کی غرض سے مختلف ملکوں میں گئے ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں عُکاظ کا میلہ لگتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم وہاں تجارت کرتے تھے۔ باقی تمام تاجر عتبہ، شیبہ، ابوجہل، ولید اور دیگر مشرکینِ مکہ بھی تجارت کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تجارت کی شان یہ تھی کہ کم گوئی اور صاف گوئی سے تجارت کرتے تھے اور چیز کا عیب ساتھ بتاتے تھے۔ سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا سودا سب سے پہلے بِک جاتا تھا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم اکثر اس منافع کو غریبوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنھا سے شادی کی وجہ بھی تجارت ہی بنی۔ پہلے بی بی خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو شریکِ تجارت بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاف گوئی کی وجہ سے شریکِ حیات بھی بنا لیا۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے سامانِ تجارت کو لے کر شام کی طرف نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم خریدار کے سامنے سامان کے عیب کو کھول کر بتاتے، اور اگر اس میں کوئی اچھی بات ہوتی تو وہ بھی کھول کر بتاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سامان بیچا بھی، اور وہاں سے خریدا بھی۔ جو بڑے بڑے تاجر تھے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مقابلہ نہ کرسکے، اور آپﷺ ان سے دُگنا منافع لے کر واپس پہنچے۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم معاملات کے اندر اتنے سچے تھے کہ ایک صحابی حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمانۂ جہالت میں ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ایک معاملہ کیا۔ ابھی بات چیت _