گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
تھے، یہ ہدیہ ہم آپ کو دے رہے ہیں ، آپ اسے قبول فرما لیں ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: ہاں ! اُن لوگوں کے لیے تو وہ ہدیہ تھا، لیکن ہم لوگوں کے لیے یہ رشوت نہ بن جائے۔ (فتح الباری: 5/221عجیب بات ہے یا نہیں ؟ کہ چاہت کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ میں نہیں لیتا۔ نبیﷺ اور اُن کی جماعت کا مقام، مرتبہ اور تھا۔ اُن کی نیتیں ، اُن کے معاملات وہ للّٰہیت والے تھے۔ میرے لیے ایسا نہ ہو کہ یہ ہدیہ رشوت کی شکل بن جائے۔رشوت کیسے بنتی ہے؟ یہ بات یاد رکھیں ! جس آدمی کے ذمے جو کام ہے، وہ اُس کام کے پیسے لے رہا ہے، تنخواہ لے رہا ہے۔ اب اسے چاہیے کہ اس کام کو پورا کرے۔ اس کام پر الگ سے پیسے لینا سود کہلاتا ہے، رشوت کہلاتا ہے جو منع ہے اور حرام ہے۔ مثلاً جج کے ذمے ہے صحیح فیصلے کرنا، وکیل کے ذمے ہے صحیح طور سے کیس کو کھول کے رکھنا، حق کو واضح کرنا۔ اب یہ تو ان کی ڈیوٹی ہے۔ اب اگر یہ حضرات مثلاً اپنی ڈیوٹی نبھانے کے لیے کسی سے کوئی پیسے مانگیں ، یا لیں ، یا کوئی اِن کو دے کہ جی! اگر ہم ان کو دیں گے تو ہمارا Case ہماری مرضی کا ہوجائے گا، تو یہ تمام صورتیں منع ہیں ۔ یہ رشوت کے زُمرے میں آتی ہیں ۔ہدیہ تو خالص محبت اور اُلفت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کام نکلوانے کے لیے جو بنام ہدیہ ہوتا ہے وہ رشوت ہے، کیوں کہ یہی بندہ اگر گھر بیٹھا ہو اور کوئی غرض اس سے وابستہ نہ ہو تو کیا ہم جائیں گے اس کو دینے کے لیے؟ اگر جائیں گے بلا غرض تو پھر ٹھیک ہے، اگر نہیں جائیں گے تو پھر یہ دینا ٹھیک نہیں ہوگا۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی عہدیدار یا آفیسر سے پرانا تعلق ہے۔ ان کے عہدیدار یا آفیسر بننے سے پہلے کا۔ وہ ہمارے گھر _