گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
میں نہیں جائے گا، مقروض آدمی بھی جنت میں نہیں جائے گا، اور خیانت کرنے والا بھی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جنابِ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مقروض اپنے قرضے میں مقید رہتا ہے، قیامت کے دن وہ اپنی تنہائی کی شکایت اللہ تعالیٰ سے کرے گا۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: رقم 2916)یعنی اس کی روح جنت کی نعمتوں سے دور رہتی ہے۔ کوشش کی جائے کہ قرضہ نہ لیں ۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے، اسی پر کفایت کریں ۔ اور اگر قرضہ لینا انتہائی ضروری ہو تو اس کو ادا کرنے کی فکر کریں ، اور ادا کرنے کی پوری کوشش کریں ۔ اگر انسان اس نیت سے قرضہ لے کہ میں نے ادا کرنا ہے تو اللہ ربّ العزّت اسباب میسر فرما دیتے ہیں اور وہ قرضہ ادا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر قرضے کو ادا کرنے کی نیت سے نہیں لیتا تو اس کا مال ضائع ہو جاتا ہے اور اس کا قرضہ بھی ادا نہیں ہوتا۔ ایسے بندے کو دنیا کی پشیمانی اور آخرت کی بھی پریشانی اور ذلت اُٹھانا پڑتی ہے۔تمام مؤمنین کا ولی لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ واقعتاً حالات کی وجہ سے آدمی مجبور اور پریشان ہوجاتا ہے، اور باوجود نیت کے، کوشش اور ارادے کے اپنا قرض ادا نہیں کرپاتا۔ اور نیت کے اندر اتنا اخلاص بھی ہے کہ جیسے ہی اس کے پاس پیسے ہوں تو وہ سب سے پہلے قرضہ ادا کرے گا۔ نیت کے اخلاص کی وجہ سے ایسے لوگوں کے لیے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کا بدلہ میں اداکروں گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: میں ایمان کے والوں کے لیے ان کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں ۔ جو شخص مر جائے اور اس پر کچھ _